0

چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، میں اس عدالت کی تاریخ کا نہیں اپنے دور کا ذمہ دار ہوں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویزپڑھ کر سنائیں ، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون سی چیزیں ہیں جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائیکورٹس سے تجاویز مانگی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سماعت کے آغاز سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا ہے کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطہ نظر اہم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحییٰ کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھا جائے، میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ ہو مگر دو ججز کی دستیابی نہیں تھی اس لیے فل کورٹ نہِیں بلائی جا سکی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کے سربراہ بنے، ان پر بھی لوگوں نے دبائو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔

کمرہ عدالت میں بات چیت کرنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی سماعت کو سنجیدہ لیں، کسی کوعدالت میں بات چیت کرنی ہے تو باہر بھیج دیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں ، جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply