لندن : برطانیہ کے محققین نے تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے جو 8 سال بعد ہونے والے مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے گھٹنے میں اوسٹیو ارتھرائٹس کی تشخیص سے متعلق ایک مطالعہ کیا، انہوں نے خون میں ایسے کیمیکل پائے ہیں جو اس حالت کی نشوونما کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ جدید اور منفرد بلڈ ٹیسٹ سے جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے دائمی مرض یعنی آسٹیوآرتھرائٹس کی 8 سال قبل ہی تشخیص ہوجائے گی۔
اوسٹیو ارتھرائٹس ایک عام حالت ہے اور خاص طور پر اس مرض کی تشخیص ایکسرے کرانے پر اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہو۔ محققین نے بتایا کہ بائیو مارکر ٹیسٹ آٹھ سال پہلے تک اوسٹیو ارتھرائٹس کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔
آسٹیوآرتھرائٹس جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے شدید اور دائمی درد کو کہا جاتا ہے جو کہ عام طور پر بڑھتی ہوئی عمر میں ہوتا ہے، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر یہ نوجوانوں پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔
طبی جریدے کی ماہرین صحت نے درجنوں رضا کاروں پر تحقیق کی جس کا دورانیہ 10 سال تھا، ان رضاکاروں کی عمریں 45 سے 65 سال کے درمیان تھیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، اس دوران رضاکاروں کے ایکسرے اور باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ٹیسٹ بھی کیے گئے۔
تحقیق کے ابتدائی ایام کے پہلے دو سال بعد اور بعد ازاں 6 سال بعد دوبارہ ٹیسٹ لیے گئے جس کے بعد ایک بار پھر ان افراد کی بیماری کا جائزہ لیا گیا۔
ماہرین کے مطابق بلڈ سیرم کے ذریعے آسٹیوآرتھرائٹس کے ممکنہ شکار ہونے والے افراد میں (cartilage) کے ساتھ ساتھ (synovium) اور (peptides) کیمیکلز کی زیادہ مقدار پائی گئی۔
ماہرین نے تینوں کیمیکل کے بلڈ ٹیسٹ کا موازنہ 8 سال بعد ایکسریز اور بی ایم آئی ٹیسٹس سے کیا اور دیکھا کہ جن میں بلڈ ٹیسٹ میں مسئلہ تھا، ان رضاکاروں میں آسٹیوآرتھرائٹس کی تشخیص ہوئی۔