قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن ہمیں انکار بھی نہیں ہے، اگر اسپیکر صاحب نے وقت دیا تو بات کریں گے۔
فضل الرحمان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر کا مطالبہ درست ہے جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے میں اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، ہمیں سنجیدگی سے دیکھنا پڑے گا ہمارا ملک اب کہاں کھڑا ہے، اس ملک کو حاصل کرنے میں اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا کوئی کردار نہیں، آج بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے اور عوام کہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عوامی نمائندگی پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے بڑی جدو جہد کے ساتھ عوام کو ووٹ کا حق ملا، عوام کو بڑی جدو جہد کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام ملا، قائد اعظم کا پاکستان کہاں ہے آج ؟ یہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں 2018ء کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا اور اس پر بھی اعتراض ہے، اُس مینڈیٹ کے ساتھ اگر وہ دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ سیاست دان معلومات کی بنیاد پر بات کرے اور ہماری معلومات کے مطابق اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں، یہ کیسا الیکشن ہے جس میں ہارنے والے مطمئن نہیں اور جیتنے والے بھی پریشان ہیں، جیتنے والوں کے اپنے لیڈر اپنے مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے، ہم نے اصل پر سمجھوتے کیے اور اپنی جمہوریت کو بیچا، ہم نے اپنے ہاتھوں سے آقا بنائے، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بناسکتے ذرا ہندوستان اور اپنا موازنہ تو کریں، دونوں ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں، دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں فیصلے وہ کریں اور منہ ہمارا کالا ہو۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ پاکستان کا فرد تین لاکھ کا مقروض ہے ہم نے قوم کو ہجوم بنا کر رکھ دیا، ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا آج ہم سیکولر ریاست بن چکے ہیں، 1973ء سے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کر عمل پیرا نہیں ہوا ہم کیسے ہم اسلامی ملک ہیں؟ ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔