سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کہتا ہے کہ عدلیہ کو مکمل آزاد ہونا چاہیے، آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے۔
لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب تک انفرادیت سے نکل کر سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے آگے نہیں چل سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ فیصلے برے ہو سکتے ہیں، پاکستان میں 24 لاکھ کیس زیر التوا ہیں، جنوری 2023ء سے دسمبر 2023ء تک 1.39 ملین کیسوں کے فیصلے دیئے۔ زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے، اپنے سسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہو گا۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ میں عدلیہ کی تاریخ سے بہت خوش نہیں، کسی سیشن جج سے پوچھوں تو وہ کیس کے بارے میں نہیں بتا سکتے، ہمیں اسمارٹ ٹیکنالوجی ڈسڑکٹ لیول تک لے کر جانی ہے، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے۔ ہمارا دنیا میں 130 واں نمبر بہت برا ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ جو جج صحیح کام نہیں کر رہا تو نکال باہر کریں، کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے، عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم ہونا چاہیے، جس جج کوسلیکٹ کر رہے ہیں سفارش کے بجائے اس کا کام دیکھیں اور میرٹ پر بنائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4 ہزار ججز ہیں اور 3 ہزار کام کر رہے ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90 جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21 ہزار جج درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں 203 لوگوں کیلئے اور پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے، پاکستان میں وکلاء کی تعداد بڑھنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس سسٹم کمزور ہو گا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کرے گا۔