0

صارم برنی کیس میں نئے انکشافات،

اسلام(زاہد گشکوری، ہیڈ ہم انویسٹی گیشن ٹیم) صارم برنی کیس میں نئے انکشافات، بچوں کودس سے پندرہ لاکھ کے عوض فروخت کرنے کا الزام سامنے آگیا۔

عدالت میں ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق ایجنسی نے قونصلیٹ جنرل آف امریکہ، کراچی سے تحریری شکایت موصول ہونے پر انکوائری شروع کی۔

صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے خلاف انکوائری تب شروع ہوئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یو ایس ایمبیسی حکام نے ایف ائی اے امیگریشن ٹیم کو ملے تھے اور ساتھ ہی جولائی اور نومبر 2023 میں ٹرسٹ کے دفتر کا دورہ کیا تھا۔

اس طرح سے صارم برنی کیخلاف چائلڈ ٹریفکنگ انکوائری دس ماہ پہلے امریکی قونصلیٹ کی شکایات پرشروع ہوئی تھی،امریکی قونصلیٹ کراچی نے ایف آئی اے کراچی کو پاکستان سے امریکہ مبینہ بچوںکوسمگلنگ ہوئی ہے۔

امریکی حکام نے دو بچوں کی تفصیلات پاکستانی امیگریشن حکام سے شئیرکیں تھی،صارم برنی کیس میں ایف آئی اے حکام کے جمع کرائے گئے۔

چالان میں انکشافات کے مطابق کہ امریکی حکام نے ایف آئی اے حکام کوصارم برنی ٹرسٹ کی جانب سے بچوں کے ویزے کے متعلق جمع کرائے گئے، مشکوک کاغذات بھی حوالے کیے ۔

صارم برنی ٹرسٹ نے مبینہ طور بچوں کو امریکہ سمگلنگ کرنے کیلیے بوگسس ڈاکومنٹ تیارکیے، امریکی حکام نے چھ بچوں کو امریکی ویزے جاری بھی کیے۔

امریکی حکام کی معاملے کی چھان بین کی درخواست کی تھی، صارم برنی کے دو اہم ملازمین کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا، صارم برنی ٹرسٹ سندھ چائلڈپرٹکشن اتھارٹی  کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے۔

بچوں کو امریکہ آٹھ لاکھ سے دس لاکھ کے عوض بیچاجارہا تھا، بچوں کے والدین کو بتائے بغیریہ تمام کیا گیا، کاغذات میں بچوں کو یتیم دکھایا گیا ہے، صارم برنی کی قانونی ٹیم نے ان الزامات کی عدالت میں تردید کی ہے۔

امریکی حکام کے دورے کے دوران غیر منافع بخش ادارے نے دو بچوں جنت اور فاطمہ کی سرپرستی کی دستاویزات فراہم کیں۔ چھ اور چار سال کی عمر میں سرپرستی کی دستاویزات میں ان کے نام زہرہ اور سارہ رکھ دیے گئے۔

26 اکتوبر 2019 کو ایک مبینہ والد محمد واصف شبیر کے دستخط شدہ ٹرسٹ کے لیٹر ہیڈ پر ایک حلف نامہ میں کہا گیا کہ اس کی بیوی دو ماہ قبل گھر سے چلی گئی تھی اور اس نے دونوں بیٹیوں کو ٹرسٹ کے حوالے کر دیا تھا تاکہ انہیں کسی بھی دلچسپی رکھنے والے خاندان کے حوالے کیا جا سکے۔

ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات کیمطابق حکومت پاکستان نے اپنی ایک رپورٹ میں 22,597 اسمگلنگ کے متاثرین کا حوالہ دیا (19,143 جنسی اسمگلنگ کے متاثرین، 1,222 جبری مشقت کے شکار، اور 2,229 غیر متعینہ اسمگلنگ کے متاثرین، بشمول 3,144 مرد، 16,958 خواتین، 2,181 لڑکے، 269 لڑکیاں، اور تین نامعلوم لڑکیاں) جبکہ 2022 کے مقابلے میں، اسمگلنگ کے 18,543 متاثرین کے مقابلے میں، جن میں 2,316 مرد، 14,607 خواتین اور 1,595 لڑکے شامل تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply