ماڈل ٹاون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میٹنگ کے بعد عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کا اعلان ہوا ہے، عزم استحکام آپریشن کو ضرب عضب یا ردالفساد سے تشبیہ دی جارہی ہے، گزشتہ آپریشنز کی نوعیت مختلف تھی مگر مقاصد وہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں دہشتگردی کے خلاف آپریشنز ہوئے، 2016 میں اے پی ایس کا واقعہ ہوا پھر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، تمام سیاسی جماعتیں آن بورڈ تھیں، سب نے نیشنل ایکشن پلان کو سپورٹ کیا، آپریشن عزم استحکام بھی نیشنل ایکشن پلان کا ہی تسلسل ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ماضی اور آج کی صورتحال میں بنیادی فرق ہے، آج فاٹا کا انضمام ہوچکا ہے، ماضی میں ان علاقوں پر دہشتگردوں کا قبضہ ہوچکا تھا، پورے پورے علاقے دن رات کیلئے نوگوایریاز بن چکے تھے، آج ویسی صورتحال نہیں ہے، آج تمام علاقوں پر ریاست کی رٹ موجود ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کچھ علاقوں میں رات کے وقت دہشتگردوں کی مداخلت ہے مگر ایسی کوئی بات نہیں کہ ہماری حدود میں دہشتگردوں کی رٹ موجود ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایپکس کمیٹی بنی ہوئی ہے، کمیٹی میں چاروں وزرائے اعلی نے اس پلان کی مخالفت نہیں کی، وزیراعلی خیبرپختونخوا نے میٹنگ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کیا، وزیراعلی کے پی نے دبے الفاظ میں کہا تھا اس ایکشن کو سپورٹ کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس معاملے پر کابینہ اور پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی، سوالات اور تشویش کا خاطر خواہ جواب دیا جائے گا، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی تشویش کو ضرور دور کریں گے، جتنے دن بحث کی ضرورت ہوگی اس پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کی جائے گی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے پیچھے کسی کے سیاسی مقاصد نہیں، ہم صرف دہشتگردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں، میڈیا کو بھی چاہیے اس آپریشن کو سپورٹ کرے، آپریشن عزم استحکام خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہو گا، یہ کوئی سیاسی جدوجہد نہیں،قومی سلامتی کی جدوجہد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن اضلاع میں آپریشن ہوگا وہاں تین پارٹیوں کا ووٹ بینک ہے، یہ پارٹیاں اپنے ووٹ کی حفاظت کیلئے سٹینڈ لے رہی ہیں، جوان روزانہ جانیں دے رہے ہیں،یہ بدامنی بڑھ سکتی ہے، اس بدامنی کی ملک کے باہر سے بھی مدد ہورہی ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں یہ ملک دنیا کیلئے نوگوایریا بن جائے، کچھ عناصر چاہتے ہیں یہاں کوئی بھی نہ آئے۔