چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب اسئٹ پر نشر کیا جارہا ہے۔
سماعت کے آغاز میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دریافت کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں۔
وکیل فیصل صدیقی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزادامیدوار انتخابات لڑے، جے یو آئی (ف) میں بھی اقلیتیوں کو ممبرشپ نہیں دی جاتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں۔ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردے گا۔ جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔ وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی عدالت میں پیش کر دیے، چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔
اس دوران مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا۔ کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی۔ 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی۔
وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں۔ آزاد امیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں؟
جسٹس جمال مدوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اگر کوئی ممبر استعفیٰ دے دے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دے گی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ کو مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں، اپنے آئین پر عملدرآمد کے بجائے دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، آئین کا تقدس ہے اور اس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہونگے برے بھی لیکن جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز کی سماعت میں چیف جسٹس نے تمام وکلا کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیسرا دن نہیں ملے گا۔