ہم نیوز کے پروگرام صبح سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کافی اختلافات رہے ہیں۔ آصف زرداری کو نواز شریف کی حکومت میں پہلی مرتبہ جیل میں ڈالا گیا، شہباز شریف بھی پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں جیل گئے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ آج اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ ساتھ ہیں تو اس کی وجہ عمران خان ہیں کیونکہ وہ پیپلز پارٹی سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے دوستی پر آمادگی تو ظاہر کردی لیکن پیپلز پارٹی سے دوستی پر تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک عمران خان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتے، وہ ن لیگ کے ساتھ رہے گی، انکے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے پیپلز پارٹی رضامند ہے، اس حوالے سے پہلے پیپلز پارٹی سے اور بعد میں شہباز شریف سے پوچھا گیا تھا۔
پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں جس جماعت پر بھی پابندی لگی اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پابندی لگی تو تحریک انصاف کسی نئے نام سے آجائے گی، پی ٹی آئی رہنما سیاست کرتے رہیں گے۔
سینیئر صحافی نے کہا کہ 2018 میں جب عمران خان وزیراعظم بنے تو نواز شریف سمیت انکے کئی ساتھی جیل میں تھے۔ عمران خان کا دشمن نواز شریف نہیں، خود عمران خان ہے، اسی طرح پی ٹی آئی کی دشمن ن لیگ نہیں، خود پی ٹی آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو سیاستدان جیل میں گیا وہ باہر خود نہیں آتا بلکہ مخالف کی غلطیوں سے آتا ہے۔ نواز اور شہباز شریف اسی طرح غلطیاں کرتے رہے تو میرے خیال میں عمران خان نہ صرف جیل سے باہر آئیں گے بلکہ حکومت میں بھی آسکتے ہیں۔