وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہم نیوز کے پروگرام “فیصلہ آپ کا عاصمہ شیرازی کے ساتھ” میں فیض آباد کمشین پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کے دور میں مجھے بھی کمیشن نے بلایا تھا اور میں کمیشن کے سامنے پیش ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن کا ایک رکن مجھ سے کافی دیر بات چیت کرتا رہا جس کے بعد کمیشن کا ایک اور رکن آیا لیکن اس نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ میں جو بات چیت کرنا چاہتا تھا وہ سننا نہیں چاہتا تھا۔
کمیشن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن ایک مذاق تھا اور میں نے ان کو کہا آپ مجھے لکھ کر سوالات بھجوا دیں میں لکھ کر جواب دوں گا لیکن مجھے کبھی اس کے بعد سوالات نہیں آئے اور مجھ سے سوال کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن میں جا کر مجھے محسوس ہوا کہ آکر غلطی کی۔ اس وقت نواز شریف کے خلاف ایک سازش تیار کی گئی تھی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس کے مختلف اسٹیج میں یہ دھرنا بھی تھا جو انہوں نے خود کروایا اور لوگوں میں پیسے بانٹے گئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ پیسے کیوں بانٹے گئے تھے ؟ 2 اہم کردار کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے تو رپورٹ کس طرح مکمل ہوسکتی ہے ؟
انہوں نے کہا کہ کمیشن میں صرف سیاسی شخصیات ہی پیش ہوئیں اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے وہ بھی کمیشن میں پیش ہوئے۔ اس میں سوال ہی سوال ہے لیکن جواب کوئی نہیں۔ حکومت کو فیض آباد دھرنا رپورٹ مسترد کر دینی چاہیے اور جن لوگوں نے یہ رپورٹ بنائی ہیں وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں اور نہ کوئی ناراض ہے۔ ہماری حکومت سو فیصد نواز شریف کی رہنمائی سے چل رہی ہے اور ہم نے چیزوں کو اپنی اپنی جگہ رکھنا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو سرمایہ کاری آرہی ہے اس کا ملک میں بہت بڑا اثر ہو گا اور ملک میں مہنگائی بھی کنٹرول ہو گی۔
نجکاری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرائیوٹائزیشن بھی فاسٹ ٹریک پر آرہی ہے۔ 15 مئی کو اسلام آباد ائیر پورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی تاریخ ہے اور کئی ایئر پورٹ 15 مئی سے پہلے آؤٹ سورس ہو جائیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بہت ووٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں جبکہ کل آصفہ بھٹو کو اسمبلی میں گالیاں دی گئیں جس پر مجھے شدید دکھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے بھی پیپلز پارٹی سے اختلافات ہیں لیکن کوئی لائنیں تو ہم نے کھینچی ہوئی ہیں اور ایوان میں 34 سال گزارے لیکن مجھے کبھی اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا کل ہوا۔ سیاست میں کبھی دروازے بند نہیں ہوتے۔