برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ ایک دم ہی معاملہ موخرکرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں طلال چوہدری نے جواب دیا کہ19 آئینی ترمیم کے بعد سے پارلیمنٹ یرغمال ہے جب بھی یہ بازیاب ہو سکے جلدی کروانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انیسویں آئینی ترمیم میں پارلیمنٹ کا حق ختم کر کے اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا دیا گیا تھا جس میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کو شامل کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کو آئینی ترمیم میں اعتماد میں لینے کے معاملے پر طلال چوہدری نے جواب دیا کہ ساری جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ کے اندر ہیں اگر کسی اچھے کام وہ حصہ ڈالنا چاہیں تو وہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے، آف دی ریکارڈ تو پی ٹی آئی والے بھی یہی کہتے ہیں عدلیہ کی اصلاحات ہونی چاہیے اور وہ بھی یہ کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ ساری لیڈر شپ کا فیصلہ ہے کہ اگر مشاورت کے لیے مزید لوگ شامل ہو سکتے ہیں تو وقت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ہم نے عددی اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن کو مزید موقع دیا ہے۔