بہاولپور میں ایک ہزار سے زیادہ خواجہ سرا موجود ہیں ، انتخابات کے دوران خواجہ سراؤں کے بارے میں مختلف پلیٹ فارمز پر بات کی جاتی ہے لیکن انکے مسائل کے حل اور ووٹ کے بنیادی حق کے بارے میں عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
خواجہ سرائوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں جب پہلی بار ہم ووٹ دینے گئے تووہاں پر ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا گیا جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں ، ہمیں عجیب و غریب ناموں سے پکارا گیا ،آوازیں کسی گئیں ، تالیاں ، سیٹیاں بجائی گئیں ہمارا مذاق اڑایا جاتا رہا۔
ٹرانس جینڈر ایکٹویسٹ صاحبہ کا کہنا ہے کہ الیکشن سے ہمیں ہمیشہ دور رکھا گیا ہے۔ عدالتی فیصلےکے باوجود نادرا نے ہمارے شناختی کارڈ نہیں بنا کر دیئے۔
ایک اور خواجہ سرا خوبصورت کا کہنا ہے کہ ہمارے شناختی کارڈ ہی جب نہیں بنیں گے توہم بھلا الیکشن کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔ ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے اگر شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو یہ بھی کہا جاتا ہے اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ لے کر آئے کیا اس معاشرے میں لڑکا لڑکی اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ جمع کراتے ہیں؟۔
دوسری جانب بہاولپور کی سیاسی شخصیت شازیہ نورین نے کہا کہ خواجہ سرا ہماری سوسائٹی کا سب سے پسا ہوا اور معصوم طبقہ ہے ، ہم نے انکے لئے انٹرپورنیورشپ کا پلان بنایا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ چوکوں چوراہوں پر مانگنے کی بجائے خواجہ سرا اپنا چھوٹا کاروبار کریں ۔
اس حوالے سے متعدد بار الیکشن کمیشن آفس سے بھی رابطہ کیا گیا کہ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔