وفاق اور چاروں صوبوں میں ترقیاتی فنڈز کے معاملے سے متعلق کیس میں عدالت نے بلاک مختص کردہ اسکیمز یا امبریلا اسکیمز کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ حالیہ منظور شدہ بجٹ کی سالانہ ترقی پلان سمری فنانس سیکرٹری یا چیف سیکرٹری کے دستخط سے پیش کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم عوامی پیسے کے تحفظ کے تناظر میں کیس سن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتیں پیسے ضرور خرچ کریں لیکن شفافیت ہونی چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ ترقیاتی اسکیمز انفرادی شخصیات کی بنیاد پر نہ چلائی جائیں، ضیاالحق نے اراکین اسمبلی اور سینیٹرز کے لیے ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے دینے کی روایت شروع کی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ پہلے بھی کافی مشکلات ہیں، عوامی فنڈز کا ضیاع نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منصوبے ضرور بنائیں لیکن سب کچھ آئین کے تحت ہونا چاہیے، حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں تو منصوبے لٹک جاتے ہیں۔
ترقیاتی منصوبے انفرادی شخصیات کے تحت نہیں ہونے چاہئیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں منصوبے کیا بنائے جا رہے ہیں لیکن شفافیت ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کر دی۔