اپنی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے پیغام دیا تھا کہ حساس نوعیت کے معاملے پر ان کمرہ سیشن کر لیں۔
انہوں نے جج بابر ستار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اٹارنی جنرل صاحب نے جو آپکو پیغام دیا تھا وہ یہ تھا کہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے، ان کیمرا سیشن کر لیں۔ اس میں دھمکی کہاں ہے؟ کیا آپ سے بات کرنا بھی مداخلت ہے؟
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک اور خط لکھا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا کہ مجھے پیغام دیا گیا کہ سرویلینس کے طریقہ کار کی سکروٹنی کرنے سے پیچھے ہٹ جاؤ، میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ میں نے یہ نہیں سمجھا کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے عمل کو کافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے سے متعلقہ مقدمات میں بدنیتی پر مبنی مہم کا فوکس عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے ایک دھمکی آمیز حربہ معلوم ہوتا ہے ، آڈیو لیکس کیس میں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں، متعلقہ وزارتوں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی ، آئی بی، ایف آئی اے، ریگولیٹری باڈیز پی ٹی اے ، پیمرا کو عدالت نے نوٹس جاری کئے تھے۔