چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت بانی تحریک انصاف کا خط سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ خط کے مطابق بانی پی ٹی آئی ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے خود پیش ہونا چاہتے ہیں یا وکیل کریں گے۔
بانی پی ٹی آئی کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں ، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے میں بانی پی ٹی آئی ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں، یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئین سے متعلق معاملہ ہے، کسی کے ذاتی حقوق کا معاملہ نہیں، ایک بندہ جو وکیل بھی نہیں وہ ہمیں کیسے معاونت فراہم کر سکتا ہے؟ ہمارا آرڈر تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے سے دلائل دے سکتے ہیں۔
حکومت پرسوں ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کرے ، چیف جسٹس کی ہدایت
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ بانی پی ٹی آئی کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کے انتظامات کئے جائیں، یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ بانی پی ٹی آئی جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں فریق ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بانی تحریک انصاف دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کر دی ، جس پر چیف جسٹس نے حکومت کو پرسوں بانی تحریک انصاف کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کر دی۔
یہ معاملہ کسی فرد کی نہیں ، قانون میں ترمیم کی شقوں کا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، وفاقی حکومت متاثرہ فریق ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے؟ متاثرہ فرد ہی اپیل کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کسی فرد کی نہیں ، قانون میں ترمیم کی شقوں کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ بے نظیر کیس کے تحت یہ اپیل تو قابل سماعت ہی نہیں، زیادہ تر ترامیم نیب آرڈیننس سے لی گئی ہیں، ہائیکورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، عدالت متاثرہ فریق کی تعریف کر چکی ہے۔
نیب کو ہمیشہ پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا گیا ، جسٹس اطہر کے ریمارکس
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کو آرڈیننس جاری کرنے کیلئے وجوہات لکھنی چاہئیں۔ مخدوم علی خان نے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے سے متعلق آئینی شقوں کو پڑھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا اگر صدر مطمئن ہو تو آرڈیننس جاری کیا جاتا ہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا حکومت نے وجوہات دینی ہے کہ آرڈیننس اس وجہ سے جاری کرنا ضروری ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بریگیڈیئر اسد منیر کا خود کشی کا نوٹ کافی ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق کی بات ہے، سپریم کورٹ کا 11 رکنی لارجر بنچ ایسی درخواستوں کو سن چکا ہے۔
نیب بتائے، پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کیخلاف کیسز چلوائے، کتنے کو قید کیا؟ جسٹس اطہر
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کسی نے کروڑوں کھا لئے، وہ لاکھوں میں بھی ہو سکتے ہیں، کیا دنیا میں ایسی کوئی مثال ہے کہ قانون سازوں نے رقم کا تعین کیا ہو؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ جو 25 ریفرنس واپس ہوئے ان کا ٹرائل کہاں ہو گا؟ کیا یہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت نہیں ؟ 1999ء میں نیب کا جو کنڈکٹ رہا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ نیب کیا ملک میں کسی کو جوابدہ ہے؟ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کرپشن ایک مسئلہ ہے، جسے روکنے میں نیب مکمل ناکام ہو چکا ہے، نیب بتائے پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کے خلاف کیسز چلوائے، کتنے سیاستدانوں کو قید کیا؟
کیا نیب ملک میں کسی کو جوابدہ ہے ، جسٹس جمال مندو خیل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب نے 3 سال ایک شخص کو جیل میں رکھا، جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ ظلم بھی بہت ہو رہا ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ لوگوں پر اب تو ظلم نہیں ہو رہا ؟ اٹارنی جنرل! آپ نے یقینی بنانا ہے کہ ویڈیو لنک کام کرے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ نیب سے پوچھا گیا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کر رہا ہے یا مخالفت؟ نیب کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اپیلوں کی حمایت کرتا ہے۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ سینئر وکیل خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے، مخدوم علی خان کے دلائل کو فاروق ایچ نائیک نے اختیار کیا۔
حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کی حاضری یقینی بنائیں۔ حکم نامے میں کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی جانب سے اپیل کی مخالفت کی گئی، اٹارنی جنرل اور بقیہ 4 ایڈووکیٹ جنرلز نے اپیلوں کی حمایت کی۔
سپریم کورٹ کی حکمنامے کی کاپی خواجہ حارث اور بانی پی ٹی آئی کو بھجوانے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس حکم نامے کی کاپی خواجہ حارث اور بانی پی ٹی آئی کو بھجوائی جائے۔ بعدازاں عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی۔