اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج پی ٹی آئی رہنما زین قریشی کی پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتاری کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔ عدالت نے زین قریشی کی درخواست بھی دیگر ارکان اسمبلی کی درخواست کے ساتھ یکجا کردی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ ڈویژن بینچ میں کیس لگا ہے، دیکھنا ہے پارلیمنٹ سے گرفتاری کیسے ہوئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق بھی معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کریڈٹ دینا ہو گا کہ بڑے عرصے بعد اچھی کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس نے بھی یہ ایف آئی آر لکھی اچھی کامیڈی لکھی ہے۔ شعیب شاہین پر پستول ڈال دی، شعیب شاہین کو میں نہیں جانتا؟ گوہر خان کا کہہ رہے ہیں کہ پستول نکال لی، کیا ان کو میں نہیں جانتا؟
انہوں نے استفسار کیا کہ کامیڈی آپ نے پڑھ لی، اب اِن سے کیا برآمد کرنا ہے؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ شعیب شاہین سے ڈنڈا برآمد ہو گیا ہے، پراسیکیوٹر جنرل کی بات پر کمرہِ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے مزید کہا کہ شیر افضل مروت سے پستول برآمد ہو گیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے کہ چار دن ہو گئے، آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا، آٹھ دن کا ریمانڈ کیوں دیا گیا؟ دو دن کا دے دیتے۔
بعد ازاں چیف جسٹس پی ٹی آئی رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مقدمے میں مضحکہ خیز قسم کے الزامات لگائے گئے اور8 دن کا ریمانڈ دے دیا۔