ذیابیطس کا مرض ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا جارہا ہے، جس کے تدارک کیلئے طبی محققین اپنی ہر ممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق سال 2030 تک تقریباً مزید 55لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوں گے۔
اس مرض کے علاج کیلئے انسولین کے علاوہ بہت ادویات تجویز کی جاتی ہیں تاہم ذیابیطس میں استعمال ہونے والی ایک دوا رعشہ (پارکنسنز) کے لیے بھی مفید ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی اس حوالے سے محققین نے انکشاف کیا ہے کہ ذیابیطس کی دوا لکسینیٹیڈے پارکنسنز (رعشہ) کی بیماری کو روکنے میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی یہ دوا رعشہ کی بیماری کو بڑھنے سے روکتی ہے، ماہرین نے اس نئے تجربے کو رعشہ کی بیماری کی روک تھام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
فرانسیسی محققین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذیابیطس کی دوا لکسینیٹیڈے دماغی تنزلی کی علامات کے بڑھنے کو سست کرسکتی ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں رعشہ کی بیماری میں مبتلا ان 156 افراد کو تحقیقات کے لیے منتخب کیا گیا جو رعشہ کی دوائیں لے رہے تھے۔ ان سے آدھے افراد کو جی ایل پی ون دوا اور باقی نصف کو پلیسبو ایک سال کے لیے دی گئی۔
ایک سال کے بعد جن لوگوں کو ذیابیطس کی دوا نہیں ملی ان کی علامات میں تنزلی کی بیماری کی شدت کے پیمانے پر 3 پوائنٹس کی کمی ہوئی، جب کہ دوسرے گروپ میں علامات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ تاہم، محققین نے لکسینیٹیڈے کے ضمنی اثرات کو بھی نوٹ کیا۔
یہ دوا لینے والے تقریباً 46 فیصد لوگوں کو متلی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ تقریباً 13 فیصد میں الٹی کی علامات تھیں۔
پارکنسنز یعنی رعشہ مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور بتانے والی علامات میں ایک ہاتھ میں تھرتھراہٹ، سست حرکت، جسم کے حصوں میں سختی اور توازن اور ہم آہنگی کے مسائل شامل ہیں۔ زیادہ متاثرہ افراد کی ٹانگیں اس حد تک اکڑ سکتی ہیں کہ وہیل چیئر کے استعمال کی ضرورت پڑنے پر کھڑے ہونے کے دوران چلنا اور توازن برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔