0

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہا جاتا پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔ سوال یہ ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل 8(5) اور 8(3) ہے، دونوں ذیلی آرٹیکلز یکسر مختلف ہیں، انہیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں ، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہو سکتے، خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کے دو حصے ہیں ایک آرمڈ فورسز کا دوسرا سویلینز کا۔

خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھا اور کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اسفتسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں سویلنز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ صرف مخصوص شہریوں کیلئے تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عام تاثر اس سے مختلف ہے، جسٹس جمال نے کہا کہ عام تاثر کو چھوڑ دیں یہ بتائیں سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب آرمی ایکٹ میں آتے ہیں تو کیا سارے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں؟ جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ اس میں انٹرنیشنل پریکٹس کیا ہے کیا آپ کے پاس اس کی کوئی مثال ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ میرے پاس مثالیں موجود ہیں ۔

جسٹس جمال نے کہا کہ ہمارے بہت سے جوان شہید ہوتے ہیں ان پر حملہ کرنے والوں کا بھی کیا ملٹری ٹرائل ہو گا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ مستقبل میں کن لوگوں کا ٹرائل ہو سکتا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں، پانچ رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا۔

جسٹس نعیم افغان نے مزید کہا کہ اب آفیشل سکرٹ ایکٹ میں 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی ہے، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے کہ قانون بنائے کیا کیا چیز جرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply