0

عدلیہ میں مداخلت ہورہی ہے، جسٹس اطہر، پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں ججز از خود نوٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہیے، گھر بیٹھ جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل اور مختلف بارز کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی نہیں ملا۔ حکومت کا جواب داخل کرنے کے لیے حکمنامہ وزیراعظم کو دکھانا ضروری ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے عملے سے سوال کیا کہ کیا حکم نامے پر دستخط ہو گئے، اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج حکم نامہ مل جائے تو حکومت کل تک اپنا جواب داخل کردے گی۔ چیف جسٹس نے عملے کو باقی رہ جانے والے 3 ججز سے آرڈرپر دستخط لینے کی ہدایت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت میں اپنی تجاویز جمع کرائیں جس میں سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ بارعدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تجاویز  میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو کسی بھی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ میں انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت پر وفاقی حکومت کے جواب دینے کا آرڈر کا حصہ پڑھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تعجب ہورہا ہے کہ اتنے وکیل ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک پیج پر نہیں آسکتے۔ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بڑی تنظیمیں ہیں جب ہدف ایک ہے تو کہیں ایک ہیں۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 6 ججز نے خط میں لکھا کہ مداخلت کا عمل جاری ہے اور سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہورہی ہے۔ ساری ہائیکورٹس نے اپنی رپورٹس میں سیاسی مقدمات پر سنگین باتوں کو اجاگر کیا ہے اور ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا کہ یہ آئین کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مداخلت تو ہورہی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کررہی۔ ہم سب کو ماننا چاہیے انڈر ٹیکنگ دیں کہ وکلا کی مداخلت بھی روکی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہو یا نہ ہو؟ مجھے بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ آگے بڑھتے ہیں کیونکہ دیگر افراد بھی ہیں، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ہوں لیکن میں بطور خود سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں دیگر ممبران بھی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ امید کرتے ہیں کہ ایک جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ نہیں کرسکتی۔ حقیقت بہت مختلف ہے اور ہم سب جانتے ہیں حقیقت کیاہے، ہائیکورٹ کے ججز ہیں، غلط نہیں کہہ سکتے، سب مان رہے کہ مداخلت ہوتی ہے، اس کا علاج بتا دیں جو ہائیکورٹ کے ججوں نے کہا ہے۔ ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے،  ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، میں بالکل واضح کہنا چاہتا ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا یہ بات اٹارنی جنرل صاحب نے بھی کہی ہے، میں صرف توہین عدالت پر فوکس کررہاہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply