0

ہماری سیاسی جماعت جون کے آخر میں آئے گی، مفتاح اس کا حصہ ہیں، شاہد خاقان

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے ہم نے سیاسی عدم استحکام کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی ،آج ہم ہر قسم کی تفریق کا شکار ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام’’ فیصلہ آپ کا‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا مسائل ہمیشہ مشاورت اور بات چیت سے حل ہوتے ہیں ،آج سب کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا ہو گا ،بانی پی ٹی آئی کے پاس چوائس نہیں، بات چیت میں شامل ہو نا پڑے گا۔

ہمیں نوجوانوں کو امید دلوانی ہے ،ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اور اثاثہ نوجوان ہیں ،سیاسی استحکام کے بغیر معیشت آگے نہیں بڑھے گی ،اب اولین ترجیح سیاسی بحران کو ختم کرنا ہوناچاہیے۔

انہوں نے مزید کہا حکومت کے فیصلوں میں وہ عجلت نظر نہیں آتی جس کی ضرورت ہے،نہ کسی کی کمزوری نہ کسی کی برتری سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے،کیاکسی کو نہیں پتہ کہ ملک کے مسائل کیا ہیں؟کیا یہ لوگ ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے؟

سابق چیئرمین پی ٹی آئی ایک حقیقت ہیں،اس کو ساتھ بٹھانا پڑے گا،مجھے نہیں پتہ کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں کیوں ہیں؟بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں تو اس کی جماعت تو باہر موجود ہے،اگر کرائسز آتے ہیں تو کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا؟

اگر کرائسز آتے ہیں تو سب نقصان میں جائیں گے،ریلیف اگر قانون کے مطابق مل رہا ہے تو بہت اچھی بات ہے،جس کو ریلیف مل رہا ہے اس کو مبارک ہو،کوئی ادارہ یا شخص کہے کہ میں ذمہ دار نہیں تو اس بات کو نہیں مان سکتا۔

آپ ذمہ داروں کا تعین نہیں کررہے ،کٹہرے میں کون کس کو کھڑا کرے گا سارے ذمہ دار ہیں،آپ کی ذمہ داری ہے ملک کے مسائل حل کریں،جب سے ملک بنا ہے عوام کے مینڈیٹ کی نفی کی جا رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا ہم تو کہتے ہیں جمہوریت کی نہیں ملک کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،موجودہ مسائل کا فوری حل صرف ایک جگہ بیٹھنے میں ہے،اگر باجوہ کی ایکسٹینشن کیلئے سب اکٹھے ہوسکتے ہیں تو کیا ملک کیلئے نہیں ہوسکتے؟

ساری سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں لیکن حالات درست نہیں کرسکیں،ملک کے مسائل حل کرنے میں یہ سیاسی جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں،ہماری سیاسی جماعت جون کے آخر میں آئے گی، مفتاح اسماعیل اس کا حصہ ہیں۔

نوازشریف کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے اپنے دوستوں کویادرکھا،دوست وہ ہوتے ہیں جو مشکل میں ساتھ دیتے ہیں،نوازشریف نے واپس صدارت لی تو اپنے دوستوں کو یاد کیا جو مشکل وقت میں کھڑے رہے۔

نوازشریف سے کوئی شکوہ نہیں،نہ وہ مجھ سے شکوہ کرسکتے ہیں نا میں ان سے،آپ کی سوچ تھی ووٹ کو عزت دو آپ نے وہ چھوڑ دیا،جب آپ نے ووٹ کو عزت دو کی سوچ کو چھوڑا تو عوام نے آپ کو چھوڑ دیا۔

ہم ایسی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں جو ملک کے مسائل کی بات کرسکے،مسلم لیگ ن سے کوئی شکوہ نہیں اور نہ ہی ناراضگی ہے،عوام نے اس کرسی پر بیٹھنے کیلئے آپ کو ووٹ نہیں دیئے۔

اگر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے تو استعفی دیکر گھر جائیں اور کسی اورکو موقع دیں،پہلے جماعت ہوتی ہے پھر شخصیات ہوتی ہیں۔ہمیں وہ لوگ چاہئیں جن میں ملک کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہو۔

ہر بجٹ عوام کیلئے مشکل ہی بڑھائے گا،پیٹرول کی قیمت بڑھنے اور کم ہونے سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں،ملک میں آج آئینی بحران ہے، ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا،آج کے حالات اس طرح کے ہیں کہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

آج کی حکومت کے بارے میں بڑاآسان فارمولا ہے،جو یہ کر رہے ہیں وہ نہ کریں ، جو یہ نہیں کررہے ہیں وہ کریں ملک چل پڑے گا۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا معاشی بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے ،بجٹ کےبعد مہنگائی اور عوام پر بوجھ بڑھے گا ،حکومت نے ایک سال اور ضائع کر دیا ہے ،حکومت کے اخراجات کم اور طاقتور طبقے پر ٹیکس لگانا ہو گا۔

حکومت اپنے سائے سے ڈرتی ہے اور کوئی کا م نہیں کر سکتی ،معاشی راستہ دکھانے کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے ،حکومت کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ ہو رہا ہے،جوحکومت اپنے سائے سے ڈرتی ہو وہ کوئی اصلاحات نہیں لاسکتی۔

گرمی میں بجلی اور سردی میں گیس کے بل بڑھ جاتے ہیں،پاکستان کاپورا نظام حکمرانی بہت عرصے سے فیل ہے،اس حکومت کو یہ ادراک نہیں کہ قرض روکنا چاہئے۔

یو اے ای کے 10بلین کے حوالے سے پریس ریلیز کس نے جاری کی؟قرضے ری شیڈول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا،چین اگر قرضے ری شیڈول کرتا ہے تو ان کی مہربانی ہے،حکومت کو ایک سمری جاری کرنا نہیں آتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ آئے گا تو ٹیکسز بڑھیں گے اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا،سیاسی لیڈرز کو پتہ ہے ملک گہرائی میں پھنسا ہوا ہےمگرادراک نہیں،بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں جمہوریت نہیں میں جانتا ہوں،بنگلہ دیش میں گزشتہ 10،15سال میں ترقی ہوئی ہے،کچھ کروتو سہی، یہ بیٹھے ہوئے لیکن کچھ نہیں کررہے،342لوگوں نے باجوہ کے ایکسٹینشن کیلئے ووٹ دیا تھا،ساری جماعتوں نے باجوہ کی ایکسٹینشن کیلئے ووٹ دیا تھا۔

پہلی بارہم آج پاکستان کیلئے پریشان ہیں،ہمارے نظام حکمرانی نے ہمارے لوگوں کو مایوس کیا،ہمارے نظام حکمرانی نے لوگوں کیلئے کچھ نہیں کیا،پنجاب میں بھی تعلیم اچھی نہیں،بجلی کے نظام کو پرائیوٹائز کرنا پڑے گا۔ان کو پرائیوٹائزیشن کرنے سے کس نے روکا ہے؟

ہر چیز سے آپ نے معذرت کرنی ہے تو کیا وزیراعظم صرف دورے کیلئے رکھا ہے،حکومت نجکاری کرسکتی ہے، اخراجات کم کرسکتی ہے،آگر آپ ہر چیز پر کہیں کہ ہمارے پاس اتھارٹی نہیں تو پھر حکومت چھوڑ دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply