سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ہم نیوز کے پروگرام “فیصلہ آپ کا” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں مہنگائی کم ہوئی ہے اور معیشت میں بہتری آئی ہے۔ مہنگائی 11 فیصد پر آگئی جو پچھلے سال 37 فیصد پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے توقعات کے مطابق شرح سود میں کمی نہیں کی۔ ملک سے بیروز گاری اور مایوسی کم نہیں ہوئی۔
ٹیکسز سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گھریلو بجلی صارف کے بل پر 24 فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ یہی ٹیکسز دکانداروں کو کمرشل اور صنعتکاروں کو انڈسڑیل بل پر لگتے ہیں۔ حکومت فی الفور بجلی بلوں پر اضافی ٹیکسز ہٹا سکتی ہے اور وفاق 185 ارب روپے کا پی ایس ڈی پی کم کر کے بجلی بلوں میں ریلیف دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت میں سوچ کا فقدان ہے۔ اگر آپ بجلی کی قیمت کے ٹیکسز کم کریں گے تو بجلی کی کھپت بڑھ جائے گی۔ حکومت اپنی ساکھ کھو رہی ہے جس کا وہ بجلی بلوں میں کمی کر کے سدباب کر سکتی ہے۔ مسائل تو سارے کنٹریکٹس میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کی پالیسی کے تحت ہونے والے پروگرامز ایکسپائر ہوچکے ہیں۔ اس سال400ارب روپے صرف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو دیں گے۔ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم تھے تو انہوں نے ایک تبدیلی لائی تھی کہ جو بھی پاؤر پلانٹ لگے گا وہ اوپن بڈنگ کے بعد لگے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کے ہاتھ میں ہے کہ ٹیکس کم کر دیں۔ اس میں کیا بڑی بات ہے جبکہ جماعت اسلامی اور ہمارا موقف تھوڑا مختلف ہے۔ شاہد خاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ آئی پی پیز سے معاہدہ توڑنا ممکن نہیں۔ ہم دھرنے دے سکتے ہیں لیکن 15 دن بیٹھیں یا 126 دن کچھ نہیں ہو گا۔ ہم نے مشورہ دیا ہے کہ آپ ٹیکسز کم کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مڈل کلاس مشکل میں ہیں اور بجلی بل ادا نہیں ہو پا رہے۔ یہ بھی سوچیں زیادہ آئی پی پیز کس نے لگائے اور امپورٹڈڈ فیول پر کیوں لگائے۔ حکومت چین جا کر ٹرین کی بات کر رہی تھی۔ ادھر زہر کھانے کے پیسے نہیں اور آپ نئی ٹرینیں لا رہے ہیں۔