0

وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد تک اضافہ متوقع

وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 سے 12 فیصد تک اضافہ متوقع ہے ۔

وزارت خزانہ کی سفارشات کے مطابق حکومت حتمی فیصلے کااعلان کرے گی۔اگر منظوری دی گئی تو بڑھی ہوئی تنخواہ جولائی 2024 سے نافذ العمل ہو جائے گی۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف مشن کی آمد سے قبل رواں ماہ کے وسط تک بجٹ اہداف پر کام مکمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم آفس کی جانب سے بھی معاشی ٹیم کو بجٹ ورکنگ مکمل کرنے کا ٹارگٹ سونپ دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق بجٹ بنانے کی حکمت عملی پر کام شروع ہو گیا ہے اور 6 بڑے اہداف کا حصول مرکزی نکتہ ہے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہداف کے حصول کے لیے آئی ایم ایف حکام کے ساتھ طریق کار طے پا گیا ہے۔

بیرونی قرضوں کی بروقت واپسی پہلا اصول طے پایا ہے،اداروں، بینکوں، دوست ممالک اور بانڈز کے ذریعے حاصل کردہ رقوم ان میں شامل ہیں، خساروں کو کم کرنے کے لئے اخراجات پر کٹ اور نئے قرضوں پر پابندی لگانا شامل ہوگا۔

آئی ایم ایف حکام کے ساتھ اس ضمن میں ایک فہرست پر تبادلہ خیال ہوچکا،ٹیکس چوری کے خلاف مہم سارا سال جاری رکھی جائے گی،اس مہم کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔

نجکاری کے لئے یکم جون تک کئے جانے والے فیصلوں کے تحت بجٹ میں نئی قانون سازی ہوگی،اس قانون سازی کے فریم ورک پر آئی ایم ایف حکام کی رائے موصول ہوچکی ہے، گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیئے ادائیگیوں کا نیا نظام بجٹ اہداف کا حصہ ہوگا۔

ان اہداف کے حصول کے لئے پاکستان کے ڈیبٹ اسٹاک کی نئی تشکیل بجٹ کا حصہ ہوگی،پیٹرولیم، بجلی اور گیس سیکٹرز میں ان اہداف کے حصول کے لئے اہم اقدامات بھی بجٹ کا حصہ ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی پنشن سسٹم میں بڑی تبدیلیاں بھی بجٹ کا حصہ ہوں گی، اس ضمن میں نئے قوانین کا اطلاق اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد ہوگا۔

ذرائع کے مطابق نیا قرض پروگرام سائن کرنے کیلئے وزارت خزانہ نے متعلقہ وزارتوں کو اہداف مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، تمام اہم اہداف کا ڈھانچہ تیار کر کے آئی ایم ایف کیساتھ شیئر کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف مشن کی آمد سے قبل بجٹ اسٹریٹجی پیپر بھی کابینہ سے منظور کرا لیا جائے گا، ڈیٹ سروسنگ، ڈیفنس، ایف بی آر ٹارگٹ، اخراجات کے تخمینہ کے اہم اہداف بھی فائنل کیے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply