0

شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ –

سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply