وہ (انسان) حیوانات میں ایک ایسی مخلوق ہے جس کی تخیل یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ اور اپنی ضرورتوں کی طرح اپنے تمام ہم جنسوں کی ضرورتوں کا رفیقانہ احساس رکھا جائے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور اگر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جا سکتا ہے تو اسی بنا پر دنیا میں اور بہت سے جانور ہیں، مثلا شہد کی مکھیاں، مٹے، دیمک اور بھڑ اور چڑیوں میں بیا وغیرہ جو کافی تخلیقی یا تعمیری قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بے ساختہ اس سے کام لیتے ہیں۔ وہ چھتے، اور گھونسلے ایسی فن کارانہ خوش اسلوبی کے ساتھ بناتے ہیں کہ انسان ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔
لیکن یہ ادنی درجے کے جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی ذاتی یا زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی فوری ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں یک طرفہ ہوتی ہیں۔ انسان کے مساعی اجتماعی قدر لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں، اپنی قدرتی جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کرتے ہیں اور انسان یعنی مہذب انسان اپنی جسمانی ضرورتوں سے آزاد ہو کر تخلیقی فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہترین تخلیق اس وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کی ادنی حیوانی ضرورتیں آسودہ ہو چکی ہوں اور وہ ان کے ترددات سے فراغت پا چکا ہو، غیرانسانی مخلوقات اپنی اپنی ذاتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کو پھر سے پیدا کرسکتی ہیں اور انسان سائرِ کائنات کو پھر سے پیدا کر سکتا ہے۔
دوسرے جانوروں کی تخلیقی کوششیں ان کی جسمانی خواہشوں اور ضرورتوں سے براہِ راست متعلق ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے فطری مطالبات کے غلام ہوتے ہیں، برخلاف اس کے انسان اپنی تخلیقات کا پورے احساس و فکر اور مکمل آزادی کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے اور ان پر نگاہِ بازگشت ڈال سکتا ہے جو خود اپنی جگہ ایک نئی تخلیقی حرکت ہے۔ جانور صرف اپنی نوع کی ضرورت کو اپنی تخلیقات کا پیمانہ بناتے ہیں، انسان ہر نوع کی ضرورت کے مطابق اور ہر وقت ہر موقع پر موضوع کے اعتبار سے نئے پیمانے مہیا یا ایجاد کر سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات کی فنی تخلیق میں جو حسن ملتا ہے وہ اضطراری طور پر اس کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ انسان کو اس حسن کا نہ صرف شعور بلکہ درک بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اپنی قوت سے اس حسن کو اور زیادہ حسین و جمیل بنا سکتا ہے۔ انسان کی فن کاری نہ صرف ایک مفروضۂ حسن کا اظہار ہوتی ہے بلکہ حسن کے اندرونی ناموس کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو اور اسے پانے کا نام انسانی لغت میں فن کاری ہے۔
حسن کے وجود اور اس کی اثر آفرینی سے آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا ہے۔ لیکن یہ حسن ہے کیا؟ اس سوال نے بڑے بڑے اہل فکر و بصیرت کو حیران رکھا ہے۔ شہرۂ آفاق سائنس داں اور نظریۂ ارتقا کا مبلغ ڈارون مور کی دُم کا راز نہ سمجھ سکا۔ مور کی دم پر اس قرینے کے ساتھ گل کاریاں ہوتی ہیں؟ اس سوال نے ڈارون کی عقل کو چکر میں ڈال رکھا تھا، وہ زندگی کے ہر مظہر کو جہدُالبقا، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کی روشنی میں سمجھنا چاہتا تھا لیکن محض حیاتیاتی مقصد کے ماتحت حسن یعنی قرینہ یا آہنگ کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔
مور کی دُم میں اس توازن اور تناسب کے ساتھ خطوط و الوان کا التزام نہ ہوتا تو بھی حیاتیاتی غرض یعنی نسل کی افزائش اور اس کی بقا کا مقصد تو پوراہی ہوتا رہتا۔ قدرت نے اپنے تخلیقی نظام میں یہ جمالیاتی اسلوب کیوں ملحوظ رکھا؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے تاوقتیکہ ہم یہ نہ تسلیم کر لیں کہ قدرت کے اندر وہ آہنگ طبیعی طور پر موجود ہے جسے ہم حسن کہتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانی اور نباتاتی اور بہ ظاہر بے جان جماداتی دنیا بھی ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں بھی زندگی کی قوت ہے وہاں یہ حسن بھی موجود ہے اور زندگی کی بقا اور فروغ کا ضامن ہے۔
متقدمین سے لے کر آج تک لوگ حسن کو بلاوجہ ایک غیر ارضی چیز سمجھتے رہے ہیں اور جو چیز کہ سر بسر انسانی دنیا کی پیداوار ہے اس کو خواہ مخواہ ایک دیو لوک سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس ماورائیت نے حسن کو ایک سدیمی (Nebulous) شکل بنا کر رکھ دیا ہے۔ افلاطون نے حقیقت، خیر اور حسن کی سہ گانہ تقسیم کر کے ایک عرصہ تک دنیا کو مبہوت رکھا، لیکن وہ خود بڑی الجھن میں تھا۔ اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو اس کے بیان سے زیادہ اس کے بعض وقت کے سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نظریۂ تصورات کی وجہ سے اپنے نظامِ فکر میں بہت سے تناقصات محسوس کرتا ہے۔ حسن کے بارے میں بھی اس کو اپنی عدم وضاحت کا احساس تھا۔ اس نے عالمِ مثال یا عالمِ تصورات میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس عالمِ اجسام سے باہر ایک عالم ہے، جہاں ہر شے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے۔ عالم موجودات کی ہر شے اپنے تصور کی ایک ناقص نقل ہوتی ہے۔ پھر ان تصورات سے بلند اور سب پر احاطہ کئے ہوئے تصورات کا تصور، یا تصورِ اعلیٰ ہے۔ حسن اور خیر اور حقیقت اس تصور اعلیٰ کے تین مختلف رخ ہیں جو عالم اجسام میں الگ پائے جاتے ہیں۔
افلاطون کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرشد سقراط کی طرح حسن کو حقیقت اور خیر کے ماتحت تصور کرتا تھا۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ ہم سقراط اور افلاطون اور ان کے متبعین کے نظریہ تصورات سے آج ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ لیکن ان لوگوں کے بعض متفرق اقوال ایسے ہیں جو حقیقت کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جنہیں آج بھی ہم تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے، مثلاً حسن کے بارے میں سقراط کے دو اقوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو، دوسرا یہ ہے کہ حسن اس چیز کا نام ہے جو کسی غرض کو پورا کرے اور غرض سے مراد عملی مفاد ہے۔ آج ہم حیرت کر سکتے ہیں کہ جس مفکر نے حیات اور کائنات کے سارے نظام کی بنیاد مادی اور عملی دنیا سے الگ تصورات پر رکھی ہو وہ حسن کا ایسا افادی نظریہ کیسے پیش کر سکا۔
بعد کے اشراقیوں اور صوفیوں نے اسی تصور یا عالمِ مثال کے نظریہ کو اور زیادہ وسعت دی اور ہر ترقی یافتہ زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور مفکروں نے اس سرابی بنیاد پر رنگ برنگ کی نازک اور دل پذیر عمارتیں تیار کیں اور ان لوگوں نے لافانی حسن، ازلی حسن، لاہوتی حسن، حسن مطلق، حسن حقیقی وغیرہ جیسے بت تراشے جن کے آگے سر جھکانے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کیٹس نے حسن کو حقیقت اور حقیقت کو حسن بتایا اور اسی کے اظہار کو شاعری کہا۔ بیدل بھی حسنِ حقیقت کے قائل ہیں یعنی حسن اور حقیقت کو ایک سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر جگہ اسے سامنے موجود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی جستجو نہ کرنا ہی اس کو پانا ہے۔
حسن کے اس پراسرار تصور نے فکر و احساس کی دنیا میں بڑی بڑی نزاکتیں پیدا کیں اور اس کی بدولت شاعری اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے ایسے ناقابلِ فراموش کارنامے وجود میں آئے جن کی تواریخی قدر ہمیشہ مسلّم رہے گی۔
(معروف ادیب، نقاد اور مترجم مجنوں گورکھپوری کے مضمون حسن اور فن کاری سے اقتباسات)