0

’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘ –

منٹو کی موت ایک بڑا سانحہ تھی۔ کئی لکھنے والے دل برداشتہ ہوئے تھے۔

ایک تعزیتی جلسے میں حمید اختر نے کہا تھا، ’وہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے مار ڈالا گیا ہے۔ اسے مارنے والوں میں سب سے زیادہ ہاتھ اسے کے دوستوں کا ہے۔ اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا۔ برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اس کے ساتھ مل کر اسے برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

سب جانتے ہیں کہ منٹو کی ناگہانی موت کے لیے شراب ذمے دار ہے۔ لیکن اس کے دوست حمید اختر کا خیال کچھ اور تھا۔

’اس کی زندگی میں جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ آسائش کی محرومیاں، محبت کی محرومیاں، محبوبہ کی محرومی، اچھے مکان کی محرومی اور ضروریات زندگی سے محرومی، کہاں کہاں یہ محرومی راستہ روک کر کھڑی رہتی ہے۔ سنگدل، بے مہر اور ظالمانہ محرومی سے ٹکر مار کر انسان شراب نہیں پیے گا تو کیا کرے گا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ منٹو اور منٹو کی طرح کے دوسرے لاکھوں لوگ اچھی شراب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس سے کسک اور بڑھتی ہے اور نتیجہ جو ہوتا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply