نواب واجد علی شاہ کا ایک شوق مختلف چرند پرند اور درندے پالنا تھا۔ شرر لکھتے ہیں: “دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاجدار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔”
“عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجہ کو بھی نہ پہنچ سکی ہو گی۔ نور منزل کے سامنے خوشنما آہنی کٹہروں سے گھیر کے ایک وسیع رمنہ بنایا گیا تھا جس میں صدہا چیتل، ہرن اور وحشی چوپائے چھوٹے چھوٹے پھرتے تھے۔ اسی کے درمیان سنگ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبب رہتا اور اس میں شتر مرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صدہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔”
“صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا کہ جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پَر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے اور اس رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کی سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں بیسوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشہ دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔”
“مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہوجاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالیے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طرہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے اور اس کے کنارو ں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھکا کے اس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو، تین تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اتر آتے۔ مینڈکیاں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کر کے پکڑتے۔”
“پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی، اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے نیچے بھی دو کٹہرے تھے، جن میں دو بڑی بڑی چیتنیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں، لیکن جس وقت مرغ لا کے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کر پکڑتیں اور مسلم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہوگا اور یہ خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مشرح کیفیت قلمبند کرتے جاتے تھے۔”
“مذکورہ جانوروں کے علاوہ ہزارہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے۔ بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر لیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند و پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں، سب جمع کر لیے جائیں اور واقعی ایسا مکمل اور زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہو گا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص کوئی نیا جانور لاتا تو منہ مانگے دام پاتا۔”
“کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیس ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ زرافہ جو افریقہ کا بہت بڑا اور عجیب جانور ہے، اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں، مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کہ کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیر ببر، دیسی شیر، چیتے، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرخ، بھیڑیے کٹہروں میں بند تھے اور بڑی خاطر دشت سے رکھے جاتے۔”