اردو زبان کے نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی ڈاکٹر داؤد رہبر بھی اجمل صاحب کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ نہایت دل چسپ پیرائے میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
“بوسٹن میں میرے مہربان دوست ڈاکٹر محمد اجمل صاحب اپنے عزیز اشرف جان صاحب کے ہاں آ کر ٹھہرے تو میں نے انہیں اپنے ہاں تناول کی دعوت دی۔”
“ڈاکٹر جڈ ہوورڈ کو بھی بلایا، یہ نفسیات کے پروفیسر تھے، ڈاکٹر اجمل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں، لندن یونیورسٹی میں انہوں نے تحلیلِ نفسی کی اعلیٰ تعلیم پائی۔ میں ان کو چھیڑ کر کہا کرتا تھا پاکستان میں پاگل کہاں! آپ کی پریکٹس وہاں نہ چلے گی۔”
“بوسٹن میں انہوں نے ڈاکٹر جڈ ہوورڈ سے تین گھنٹے گفتگو میں ایسی زندہ دلی کا ثبوت دیا کہ کیا کہنے! دوسرے روز ڈاکٹر ہوورڈ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تمہارے دوست کی وسعتِ نظر اور گفتگو کی جولانی میری زندگی کا ایک خاص تجربہ ہے، میں نے امریکا میں نفسیاتی ڈاکٹروں کے حلقوں میں ایسا چومکھی ذہن والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔”
“پروفیسر ہوورڈ اور ڈاکٹر اجمل کے آفاقِ ذہنی کے تفاوت کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر اجمل کے تجاربِ زندگی کا تنوع ہے جو ڈاکٹر ہوورڈ کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کون ہے جس کی گفتگوئیں نانبائیوں، حلوائیوں، نائیوں، کمہاروں، پہلوانوں، کنجڑوں، سقوں، لوہاروں، موچیوں، لکڑہاروں، جولاہوں، بھٹیاروں، کوچوانوں، قلیوں، بھڑبھونجوں، بھانڈوں، میراثیوں، ہیجڑوں، درزیوں، عطاروں، طبیبوں، موذنوں اور مولویوں سے نہ رہ چکی ہوں۔”
“ہندوستان اور پاکستان کے مسالہ دار کھانے، آم پارٹیاں، نہاری پارٹیاں، پوشاکوں کی رنگا رنگی، پنجابی اور سندھی اور پشتوں اور بلوچی اور مارواڑی اور انگریزی بولیوں کے زمزمے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی ٹریفک کی سنسنی خیز اُودھم زندگی کا ایسا بارونق تجربہ، اور اس پر بہترین تعلیم، ڈاکٹر اجمل کا ذہن باغ و بہار کیوں نہ ہو۔”