سردار دیوان سنگھ مفتون کے نام سے ادب کے رسیا اور باذوق قارئین ضرور واقف ہوں گے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوگا۔ برطانوی راج میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے سردار صاحب نے صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ وہ مدیر ریاست اخبار، دہلی رہے اور اس زمانے میں انھوں نے کئی مضامین اور کالم تحریر کیے جو قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ انہی کی ایک خوب صورت تحریر ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
“بچّوں کی فطرت ہے کہ ان کو دنیا میں صرف دو باتیں متاثر کر سکتی ہیں اور یہ صرف ان دو سے ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ ایک کھانے کے لیے ان کو کچھ دیا جائے۔ دوسرے ان سے اخلاص و محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔
اگر کسی بچّے کو یہ دونوں اشیا اپنے خاندان کے کسی دشمن سے بھی نصیب ہوں تو یہ بچّہ اپنے گھر والوں کو بھول کر دشمن خاندان کے لوگوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور “ایڈیٹر ریاست” کا ایمان ہے کہ مالی ، ذہنی اور روحانی خوش حالی کے لیے ضرورت مند غریب لوگوں اور بچوں کی دعائیں بہت ہی پُراثر ہوتی ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے جب تک ضرورت مند دوستوں، غریب لوگوں اور معصوم بچّوں کی امداد کی مجھے روپے پیسے کے اعتبار سے کبھی کمی نہ ہوئی اور میں نے جب بھی ان لوگوں کی خدمت گزاری سے ہاتھ کھینچا میری مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور فاقہ کشی شروع ہوگئی۔ چناں چہ مجھے جب کبھی زیادہ ذہنی کوفت ہو تو میں پانچ، سات یا دس روپے کے اچھے اچھے پھل اور مٹھائیاں منگا کر محلہ کے غریب بچوں میں تقسیم کر دیا کرتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کوفت اور تشویش سے فوراً ہی نجات مل جاتی ہے اور حالات درست ہو جاتے ہیں۔
یہ کیفیت تو تشویش یا ذہنی کوفت کو دور کرنے کے متعلق ہے۔ عام طور پر بھی محلّہ اور پڑوسیوں کے بچّے مجھ سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان بچّوں کے والدین سے نہ میں نے کبھی تعلقات پیدا کیے اور نہ میں نے ان لوگوں کے نام اور حالات سے واقف ہونے کی کبھی کوشش کی۔”
(از قلم سردار دیوان سنگھ مفتون، مدیر ریاست اخبار، دہلی)