ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔
میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔
خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔
(دیوان سنگھ مفتون کی آپ بیتی سے ایک پارہ)