موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی نے چینی کی بیرون ملک بھجوانے کی کوششوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے مستقبل قریب میں چینی کا بحران پیدا ہو جائے گا، چینی دوبارہ 180 روپے سے 200 روپے کلو تک پہنچ جائے گی، ایک ہفتے میں چینی کی پرچون قیمت دس روپے بڑھنے سے 160 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ حقائق درست نہیں کہ چینی کی ایکس مل قیمتیں 145 روپے سے بڑھ کر 150 روپے فی کلو ہو گئی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک میں چینی کی موجودہ ایکس مل قیمتیں 133 سے 135 روپے فی کلو کے درمیان ہیں جبکہ ہماری پیداواری لاگت کا حساب لگایا جائے تو چینی کی قیمت 175 روپے فی کلو گرام بنتی ہے کیونکہ شوگر انڈسٹری نے کرشنگ سیزن 24-2023 میں 425 سے 550 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدا ہے۔
پچھلے سال گنے کی کم از کم امدادی قیمت تقریباً 300 روپے فی من تھی۔ دوسری طرف دیگر لاگت کے جزو جیسے پیٹرولیم مصنوعات، کیمیکل، بینک سود کی شرح، سیلز ٹیکس، مزدوری کے اخراجات وغیرہ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
اگر باقی تمام مصنوعات کی قیمتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں تو یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ صرف چینی ہی اس کی پیداواری لاگت سے کم پر فروخت ہو گی،ترجمان نے مزید کہا کہ ملک میں 15 لاکھ ٹن چینی سرپلس پڑی ہے اور حکومت پر کوئی مالی بوجھ ڈالے بغیر اسے برآمد کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم نہ صرف قومی مفاد میں ہوگا بلکہ اس سے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا،اگر ہم اس اضافی چینی کو فوری برآمد کریں تو ملک زیادہ زرمبادلہ کما سکتا ہے اور اگر اس کی برآمد میں تاخیر ہوئی تو بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمتیں مزید نیچے آ سکتی ہیں جس سے ملک کو کم زرمبادلہ حاصل ہو گا۔
ترجمان نے وفاقی وزیر صنعت، وفاقی وزیر تجارت اور حکومت کے تمام اعلی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ چینی کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کا فوری نوٹس لیں اور فوری طور پر برآمدکی اجازت دیں تاکہ کماد کے کاشتکاروں کو گنے کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے اور ملک کیلئے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جا سکے۔