پاکستان میں صحت عامہ سے منسلک سماجی کارکنان نے تمباکو کی صنعت کی جانب سے تمباکو پر قابو پانے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کاوشوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سماجی کارکنان نے بجٹ سے پہلے کے مہینوں کے دوران تمباکو پر قابو پانے کی کوششوں میں خلل ڈالنے پر تمباکو کی صنعت کی مذمت کی۔
سماجی کارکنان کے مطابق تمباکو کی صنعت کی گمراہ کُن مہموں کا مقصد عوام، خاص طور پر نوجوانوں، پالیسی سازوں، میڈیا اور حکومت پاکستان کی توجہ اس کے اولین مقصد سے یعنی صحت عامہ کی قیمت پر منافع خوری سے ہٹانا ہے۔
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ تمباکو کی صنعت نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ پاکستانی نوجوانوں اور بچوں کو اپنی نقصان دہ مصنوعات کی طرف راغب کرکے ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ان کوششوں میں تمباکو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو روکنے یا کمزور کرنے کی کوششیں شامل ہیں جیسے سگریٹ پر ٹیکس، تمباکو سے بچانے کے قوانین، نابالغوں کو فروخت اور پروموشنل اور اشتہاری پابندیاں۔
صحت عامہ کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کے لیے تمباکو کی صنعت کی کوششوں میں مشہور شخصیات اور سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں کو جھوٹے دعووں سے راغب کرنا، ان کی مصنوعات سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے جھوٹے اعدادوشمار اور خرافات پھیلانا اور حال ہی میں تمباکو کنٹرول کی حمایت کرنے والے سرکاری محکموں اور اہلکاروں کو بدنام کرنا شامل ہے۔
یہ کوششیں تمباکو کے استعمال سے منسلک صحت کے خطرات کے باوجود تمباکو کی فروخت کو برقرار رکھنے اور اسے بڑھانے میں ان کے معاشی مفادات سے چلتی ہیں۔ تاہم صحت عامہ کے حامی، محققین، اور پالیسی ساز ان کوششوں کا مقابلہ کرنے اور تمباکو کے استعمال اور صحت عامہ پر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے شواہد پر مبنی حکمت عملیوں کو نافذ کرنے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں تمباکو پر قابو پانا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، تمباکو نوشی سے متعلق بیماریاں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر ایک اہم بوجھ ڈالتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کے دستخط کنندہ ہونے کے باوجود پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد 31 ملین تک پہنچ چکی ہے۔
تمباکو کے سستے اور آسان ہونے کا مطلب ہے کہ ہر روز تقریبا 1200 بچے تمباکو نوشی شروع کر دیتے ہیں اور ہر سال تقریباً 170,000 تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان خطرناک پیش رفتوں کے جواب میں سماجی کارکنان حکومت سے تمباکو کی وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں میں چوکس اور پرعزم رہنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ثبوت پر مبنی پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بناتے ہوئے جو تمام شہریوں کی صحت اور بہبود کا تحفظ کرتی رہیں۔