جانِ اردو عشرت لکھنوی کی اردو نحو اور محاورات پر مفید کتاب ہے جس سے یہ اقتباس آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
’’جو لفظ یا جو اصطلاح یا جو محاورہ ہندوستان کے کسی شہر میں یا کسی صوبے میں بولا جاتا ہے اور دہلی اور لکھنؤ میں وہ مستعمل نہیں ہے اور زبان دانانِ دہلی اور لکھنؤ نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ ٹکسال باہر اور غلط ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض اجنبی الفاظ اخبارات میں مستعمل ہورہے ہیں یا دوسرے شہروں میں بکثرت بولے جاتے ہیں، مگر عام ہندوستان کے لوگ اُسے غلط مانتے ہیں اور اس سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی صحت کا سرٹیفکیٹ زبان کے کالج سے حاصل نہیں ہوا یعنی دہلی اور لکھنؤ کے فصحا کے نظم و نثر کلام میں دیکھنے میں نہیں آیا اور ان کی زبانوں پر اس کا استعمال نہیں ملتا۔‘‘
’’مثال کے طور پر لکھا جاتا ہے، ایک لفظ ہے “ٹھہرنا”، بفتح ہائے ہوّز۔ دہلی اور لکھنؤ میں بولا جاتا ہے اور دونوں جگہ کے مستند شعرا نے اسی طرح نظم کیا ہے۔ فصیح الملک مرزا داغ دہلوی مرحوم نے بھی اس کو ثمر، سفر، سحر کے قافیے میں لکھا ہے:
کیونکر پڑے گا صبر الٰہی رقیب کو
گر بعد مرگ میری طبیعت ٹھہر گئی
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
غم کھاتے کھاتے ہجر میں تو روح بھر گئی
اب زہر کھائیں گے یہی دل میں ٹھہر گئی
لیکن اس کو لاہور کے تمام لوگ ٹھیرنا بولتے ہیں اور پنجاب کی تمام کتابوں میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب کے سوا ہندوستان میں کوئی شہر اس کی تقلید نہیں کرتا اس لیے یہ لفظ ٹکسال باہر ہے۔‘‘
’’ اسی طرح حیدرآباد میں تقصیر کا لفظ صرف حضور کے معنی پر بولا جاتا ہے مگر لکھنؤ کے عوام عام خاص اس جدت کو غلط جانتے ہیں، اس لیے حیدرآباد کے سِوا تمام ہندوستان کے لوگ اسے غلط جانتے ہیں اور اس معنی پر اس کا استعمال نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں بعض نا آشنا نے خود روی اختیار کی ہے اور دہلی اور لکھنؤ کے اس اقتدار کو مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی لطافتِ زبان اور فصاحتِ کلام سے خار کھاتے ہیں۔‘‘
’’اردو ادب ایسی سہل نہیں کہ بغیر کسی تحصیل کے کوئی اس کی معنوی خوبیوں سے آگاہ ہو سکے۔ لوگوں نے معیارِ ہمہ دانی انگریزی زبان کو بنا لیا ہے۔ ایک ہندوستانی ایم اے سمجھتا ہے کہ میں اردو کا بھی مالک ہوں۔ حالانکہ دو سطریں صحیح اردو کی نہیں لکھ سکتا۔ اس ضد میں زبان خراب ہو رہی ہے اور ہندوستان کے لوگ جس درخت پر بیٹھے ہیں اُس کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ اگر تمام ہندوستان جہالت کے دریا میں غرق ہو جائے جب بھی وہ عظمت اور وہ عزت جو خدا نے زبان کے بارے میں دہلی اور لکھنؤ کو دی ہے، کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔‘‘
’’فرض کیجیے آج تمام ہندوستان کے لوگ اتفاق کرلیں کہ ہم دہلی اور لکھنؤ کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنی اپنی زبان بولیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر شہر کی بولی الگ الگ ہو گی۔ ایک شہر کا اخبار دوسرے شہر کے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ کوئی کہے گا ٹوپی پہنی، کوئی کہے گا ٹوپی اوڑھی۔ کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی کوئی کہے گا ٹوپی باندھی، کوئی کہے گا ٹوپی چپکائی، کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی، کوئی کہے گا ٹوپی دھری، کوئی کہے گا ٹوپی لگائی، کوئی کہے گا ٹوپی سجی، کوئی کہے گا ٹوپی چڑھائی۔ اتنا بڑا فرق صرف ایک لفظ ایک معنی میں ہو گا تو پوری زبان کا کیا ذکر ہے۔ یہ ایک موٹی بات تھی جو ہم نے بیان کی۔ ورنہ زبان میں باریک پیچیدگیاں بہت ہیں۔ سب کے سب ایک قہار سمندر میں غوطہ کھا کر مرجائیں گے اور جو زندہ رہیں گے جہالت اور مزدوروں کی زندگی بسر کریں گے؛ اور اردو زبان کا جنازہ نکل جائے گا۔ لیکن دہلی اور لکھنؤ کی عظمت و فصاحت و بلاغت بیان و زبان کا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔‘‘