وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے، آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے۔ لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی باتیں لکھی تھیں۔ وہ اپنی لوحوں اور نرسل کے قلموں کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے اور پتھر کی پشت کو بیوی سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ گو انہوں نے اپنا جادو سب سے چھپایا لیکن یہ راز ان کی تحریروں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ گو وہ اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں لوگ اب بھی یاد رکھتے ہیں۔ پس یاد رکھو تمہیں بھی تحریر کا علم حاصل کرنا ہوگا کیونکہ کتاب عالیشان مقبرے سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔
یہ بارہویں صدی قبل مسیح کی ایک مصری تحریر ہے۔
علمائے آثار کی تحقیق شاہد ہے کہ تحریر کا فن سب سے پہلے دجلہ و فرات کی وادی ہی میں وضع ہوا۔ گو مصریوں اور پھر فونیقیوں نے بھی یہ ہنر جلد ہی سیکھ لیا لیکن اوّلیت کا شرف بہرحال قدیم عراقیوں ہی کو حاصل ہے اور اگر ان لوگوں نے بنی نوع انسان کوعلم اور معرفت کا کوئی اور تحفہ عطا نہ کیا ہو، تب بھی ان کا یہ کارنامہ ایسا ہے جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ یہ انقلابی ایجاد اب سے ساڑھے پانچ ہزار برس پیشتر سمیر کے شہر ایرک کے معبد میں ہوئی۔ ایرک اس وقت عراق کا سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر تھا۔
اس شہر کی عظمت کی نشانی ورقہ کے وہ کھنڈر ہیں جو چھ میل کے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کھنڈروں کی کھدائی جرمنوں نے 1924ء میں شروع کی تھی مگر وہ پندرہ سال کی مسلسل محنت کے باوجود کام مکمل نہ کر سکے۔ ماہرین آثار کا تخمینہ ہے کہ اس شہر کی کھدائی کے لئے تقریباً نصف صدی درکار ہوگی۔
ورقہ کے ٹیلوں کی کھدائی میں جرمنوں نے پچاس فٹ کی گہرائی پر ایک زیگورات دریافت کیا۔ یہ زیگورات 35 فٹ اونچا تھا اور مٹی کے ردوں کو رال سے جوڑ کر بنایا گیا تھا۔دیواروں کی زیبائش کے لئے مٹی کے چھوٹے چھوٹے تکونے ٹکڑے استعمال کئے گئے تھے۔ ان تکونوں کو رنگ کر آگ میں پکایا گیا تھا اور پھر گیلی دیواروں پر چپکا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دیواریں بڑی خوشنما معلوم ہوتی تھیں۔ زیگورات کے ملبوں میں ماہرین آثار کو کارتوس نما کئی مہریں بھی ملی ہیں جن پر مناظر کندہ ہیں۔ ایک مہر پر قیدیوں کو قتل ہوتا دکھایا گیا ہے۔ ایک مہر پر مویشیوں کے جھنڈ بنے ہیں۔ ایک مہر پر شیر چوپایوں پرحملہ کر رہا ہے۔ ایک مہر پر پروہت کوئی مذہبی ناچ ناچ رہے ہیں، اور بالکل برہنہ ہیں، لیکن ان مہروں سے بھی زیادہ قیمتی مٹی کی وہ تختی ہے جس پر تصویری حروف کندہ ہیں۔ اس تختی پر ایک بیل کا سر، ایک مرتبان کی شکل اورکئی قسم کی بھیڑیں بنی ہوئی تھیں اور دو مثلث بھی کھنیچے گئے تھے۔ یہ انسان کی سب سے پہلی تصویری تحریر تھی جو 3500 ق۔ م کے قریب لکھی گئی۔
لوح پر کندہ کی ہوئی یہ تصویریں بظاہر سامنے کی چیز معلوم ہوتی ہیں اور ان کا مفہوم کافی واضح ہے، لیکن اصل میں یہ علامتیں ہیں اور ان علامتوں میں حروف کا سا تجریدی عمل بھی موجود ہے۔ مثلاً مرتبان کی شکل فقط مرتبان کی علامت نہیں ہے کہ بلکہ مرتبان میں رکھی ہوئی کسی چیز کا، گھی تیل وغیرہ کا وزن بھی بتاتی ہے۔ ان تصویروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تختی پر مندر کی املاک کا کوئی حساب درج ہے۔ اسی زمانے کی کچھ اور تختیاں جمدۃ النصر اور دوسرے مقامات پر بھی ملی ہیں۔ ان پر بھی اس قسم کے حسابات لکھے ہیں۔
دراصل تحریر کا فن مندروں کی معاشی ضرورتوں کے باعث وجود میں آیا۔ مندر کی دولت چونکہ دیوتاؤں کی ملکیت ہوتی تھی، اس لئے پروہتوں کو اس کا باقاعدہ حساب رکھنا ہوتا تھا۔ زرعی پیدادار کا حساب، بیج، آلات اور اوزار کا حساب، چڑھاوے اور قربانی کا حساب، کاریگروں کی مزدوری کا حساب، اشیا برآمد و درآمد کا حساب، غرض کہ آمدنی اور خرچ کی درجنوں مدیں تھیں اور ذہین سے ذہین پروہت بھی اس وسیع کاروبار کا حساب اپنے ذہن میں محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسابات کوئی نجی معاملہ نہ تھے۔ بلکہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کی معاش ان سے وابستہ تھی۔ تیسرے یہ کہ خرید و فروخت کا سلسلہ فقط ایک شہر، ایرک تک محدود نہ تھا بلکہ دوسرے شہروں سے بھی تجارتی تعلقات رکھنا پڑتے تھے۔ اس لئے تحریری علامتوں کو پورے ملک کی مروجہ علامتیں بنانا ضروری تھا۔
لیکن ان تصویری حروف کی خرابی یہ تھی کہ وہ فقط اشیا کی علامت بن سکتے تھے۔ کسی خیال یا جذبے کی نمائندگی نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی ہدایت نہیں دے سکتے تھے اور نہ کوئی سوال پوچھ سکتے تھے۔ تحریر کا فن حقیقی معنی میں تحریر کا فن اس وقت بنا جب اشیا کی تصویریں اشیا کی علامت کے بجائے ان کے نام کی آوازوں کی علامت بن گئیں۔ یہ کٹھن مرحلہ بھی اہل سمیر نے خود ہی طے کر لیا۔ چنانچہ شہر شروپک (فارا) سے بڑی تعداد میں جو لوحیں برآمد ہوئی ہیں، ان کے تصویری حروف اشیا کے ناموں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً یہ علامت داڑھی دار سر کی بھی ہے اور “کاکی” بھی جو سر کا سمیری تلفظ ہے اور بولنا چیخنا کی بھی۔ اسی طرح پیر کی علامت پیر کی نمائندہ بھی تھی۔ دو کی بھی جو پیر کا سمیری تلفظ ہے اور پیر سے متعلق حرکات ،گب (کھڑا ہونا) ،گن (جانا) اور، توم (آنا) کی آوازوں کی بھی۔
ایرک کے دور میں تصویری حروف کی تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ تھی لیکن رفتہ رفتہ ان میں تخفیف ہوتی گئی۔ چنانچہ شروپک کی لوحوں میں جو 3 ہزار ق۔ م کی ہیں حروف کی تعداد گھٹ کر فقط آٹھ سو رہ گئی۔ شروپک کی لوحوں پر بھی مندر کے حسابات ہی کندہ ہیں۔ ان کے علاوہ چند علامتوں کی فہرستیں ہیں جو مندر کے طلباء کو بطور نصاب سکھائی جاتی تھیں۔ یہ فہرستیں موضوع وار ہیں۔ مثلاً مچھلیوں کی مختلف قسمیں ایک جگہ درج ہیں اور ہر علامت کے سامنے اس پروہت یا نویسندہ کا نام کندہ ہے جس نے یہ علامت ایجاد کی تھی۔
29 ویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ یعنی سو سال کے اندر ہی تصویری حروف میں اور کمی ہوئی چنانچہ ان کی تعداد صرف چھ سو رہ گئی۔ اس کے باوجود لکھنے پڑھنے کا علم مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہا کیونکہ علم کو عام کرنا ارباب اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔
(سید سبط حسن کے ایک نہایت علمی اور تحقیقی مضمون سے اقتباسات)