دراصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پند و نصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آرا ہیں کہ آیا یہ مصوّر نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔
بغداد میں عہد دولتِ عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصوّر کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ و دمنہ کے مصوّر نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصوّر نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ء میں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔
چونکہ عام طور پر کلیلہ و دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا چربہ شمار کیا جاتا ہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کا ایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصوّر نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارسِ اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریعُ الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھا سکتا تھا۔
چنانچہ ان کتب کے کافی مصوّر نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملّی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کا نسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصوّر لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصوّر کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصتاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصوّر نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصوّر نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانۂ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔ ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔
وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کر دیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کا ایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جولانئ طبع کا مرکز رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کو اس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کر ایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعرا کے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کر کے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کر دیا۔
(ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)