ابنِ آدم کو قصّہ گوئی سے شغف ہمیشہ سے رہا ہے۔ شاید اسی وقت سے جب اُس نے بولنا شروع کیا اور بامعنیٰ گفتگو کا آغاز کیا۔ ہر طاقت وَر، دیو ہیکل، اپنے سے قوی اور ضرر رساں شے، گزند پہنچانے والی کوئی بھی انجانی، نامعلوم، پُراسرار، دیدہ و نادیدہ ہستی اور اشیاء اس کی داستانوں میں جگہ پاتی چلی گئیں۔ اور پھر داستان گوئی، کہانی کہنا اور کہانی لکھنا ادب شمار ہوا۔
دورِ جدید میں ناول اور افسانہ نگاری کے ساتھ مختصر کہانیاں بھی لکھی جانے لگیں اور ان کا چلن بشمول اردو، دنیا کی ہر زبان میں ہوا۔
امریکہ کے مشہور وائرڈ میگزین نے 2006 میں مختصر ترین کہانیوں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس میں امریکہ کے صفِ اوّل کے درجنوں مصنّفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجی تھیں۔ ان کہانیوں کے موضوعات متنوع تھے جن میں سے چند کا اردو ترجمہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔
1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
2۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خدا حافظ
3۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی!
4۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
5۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
6۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔
اب چلتے ہیں چھے الفاظ کی اُس کہانی کی طرف جو ارنسٹ ہیمنگوے سے منسوب ہے۔ وہ امریکی ادب کا ایک بہت بڑا نام، ایک اعلیٰ پائے کے ناول نگار، افسانہ نویس اور صحافی تھے۔ پیٹر ملر نامی مصنّف نے 1974ء اپنی ایک کتاب میں مختصر کہانی نویسی پر ایک واقعہ ہیمنگوے سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اُس نے ایک اخبار کے مالک کی زبانی سنا تھا جس کے مطابق ایک ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے ارنسٹ ہیمنگوے کی اپنے دوست سے ایک بات پر ٹھن گئی۔ اس نے ہیمنگوے کو چیلنج کیا کہ وہ چھے الفاظ میں کوئی پُراثر کہانی لکھ کر دکھا دے اور ہیمنگوے نے ایک نیپکن پر چند الفاظ لکھ کر اس دوست کی طرف بڑھا دیے۔ ہیمنگوے نے لکھا تھا:
“For sale: baby shoes, never worn.”
“برائے فروخت: غیر استعمال شدہ، بے بی شوز۔” لیکن اس واقعہ کی صداقت مشکوک ہے۔ اس پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی، مگر آج بھی فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن کے باب میں اس کہانی کی مثال دی جاتی ہے۔
اس تحریر میں ایسا کیا ہے جس کا ذکر مختصر کہانی نویسی کے ضمن میں دنیا بھر کے ادیب اور ناقدین کرتے ہیں اور اسے متأثر کن تحریر کہا جاتا ہے؟ یہ بظاہر ایک اشتہار ہے جس میں ایک بچّے کے جوتوں کا جوڑا فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بے بی شوز کے بارے میں بیچنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر استعمال شدہ ہیں، یعنی کبھی جوتے کی اس جوڑی کو کسی بچّے نے نہیں پہنا۔ لیکن انھیں خریدا ضرور گیا تھا اور گویا یہ ‘ری سیل’ کیے جا رہے ہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو اس کہانی کو ایک رمز اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ Never worn یعنی کبھی نہ پہنے گئے یا غیر استعمال شدہ…. یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک المیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاید والدین نے جس بچّے کے لیے اسے خریدا تھا، وہ اب دنیا میں نہیں رہا، اور والدین شاید کسی مجبوری کے تحت انھیں بیچ رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ یہ کسی اور بچّے کے کام آجائیں۔
الغرض اس کی تفہیم کرنے والوں نے ان چھ الفاظ پر مشتمل کہانی کو والدین کے لیے ایک تکلیف دہ واقعے، اور انسانی المیے کے طور پر ہی دیکھا ہے۔ اس کا مصنّف کوئی بھی ہو، یہ کہانی اپنے مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے ایک شان دار تخلیق ہے۔ مائیکرو فکشن کا حصّہ اس کہانی کو “ٹویٹریچر” بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ ٹویٹر پر بھی آسانی سے لکھی جا سکتی ہے۔