موجودہ دور میں سیاحت کی غرض سے جانے والے بعض پاکستانی سیاح اور مصنّفین نے اٹلی کا سفر نامہ بھی اردو زبان میں لکھا ہے۔ لیکن ایک صدی قبل اٹلی میں مختصر قیام کے دوران میلان شہر کا آنکھوں دیکھا حال ہمیں عبدالحلیم شرر بتاتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی اس ممتاز علمی و ادبی شخصیت نے ناول اور ڈرامہ نویسی کے علاوہ مضمون نگاری اور تراجم بھی کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔
عبدالحلیم شرر، یورپ کی 26 صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے میلان شہر اور اس کے باسیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
“میلان میں ہمارا ارادہ ایک شب قیام کرنے کا تھا تاکہ صبح کو سوار ہو کے ایسے وقت سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں میں پہنچیں جب کہ دن ہو اور اچھی طرح سیر ہو سکے۔ میلان کے اسٹیشن کے قریب ہی “ہوٹل ڈی نورڈ” تھا، جس میں جا کے ہم نے اپنا اسباب رکھا اور گاڑی پر سوار ہو کر شہر کی سیر کو روانہ ہوئے۔”
“میلان، اٹلی ہی نہیں، سارے یورپ کے اعلٰی اور خوش سواد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے شہر وینس سے عجیب طرح نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ جس طرح وینس اندر اور باہر ہر جگہ سمندر اور پانی سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح یہ شہر ہر طرف عمدہ سبزہ زاروں اور جاں فزا مرغزاروں کے جھرمٹ میں ہے۔ اٹلی میں قدامت کی یادگاریں اور تنزل کے نمونہ نمایاں نظر آتے ہیں اور میلان میں موجودہ ترقی کے آثار اور خوش حالی و دولت مندی کے اسباب ہویدا ہیں؛ اور بے شک اس کا ثبوت ہمیں اس دو گھڑی کی سیر میں بھی ہر جگہ اور ہر در و دیوار سے ملتا تھا۔”
“لوگ خوش حال اور خوش پوشاک ہیں، بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں۔ زن و مرد کے چہروں سے فارغ البالی اور مشقت پسندی کی بشاشت ایک نور کی طرح چمکتی ہے۔ سڑکیں نہایت صاف ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں لندن کی سڑکوں سے بھی زیادہ صفائی کا انتظام ہے۔ گیس کی لالٹینوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برقی لیمپ چودھویں رات کے چاند کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہر وقت معمولی گھوڑے کی گاڑیوں کے علاوہ ٹریموے کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اور ٹریموے بھی دونوں قسم کی، وہ بھی جن کو گھوڑے کھینچتے ہیں اور وہ بھی جو برقی قوت سے چلتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر ایک نئے جانے والے کے دل پر یہ پڑتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شہر جادو کا بنا ہوا ہے اور کوئی مافوق العادت چیز سارے کاروبار کو چلا رہی ہے۔”
“اٹلی کا یہ نامی اور مشہور شہر قریب ایک مدور وضع میں آباد ہے جس کو پہلے ایک دس میل کی ناتمام فصیل اپنے غیر مکمل دائرہ میں لیے ہوئے ہے۔ اس فصیل کے برابر ہی برابر درختوں کا ایک حلقہ بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، پھر اس فصیل کے اندر ایک دوسرا حلقہ ایک نہر سے بن گیا ہے، جو فصیل کے دائرہ اور مرکز کے عین درمیان میں ہے اور جس نے پانچ میل کے دور میں شہر کو گھیر لینا چاہا ہے۔ شہر کی گنجان اور خاص آبادی نہر کے حلقہ کے اندر ہے اور نہر کے باہر اور فصیل کے اندر بھی مکانات اور آبادی ہے، مگر اس حصے میں زیادہ تر نزہت افزا اور فرحت بخش باغ اور چمن ہیں جو یہاں کے عشرت پسند امرا اور جفاکش اہلِ شہر کے لیے بہت کچھ سامانِ لطف پیش کرتے ہیں۔”
“ہم گاڑی پر سوار ہو کے شہر کی آبادی، مصفا سڑکوں اور خوبصورت دکانوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے کیتھڈرل یعنی بڑے کنیسہ میں پہنچے جو خاص شہر روما کے بڑے گرجے کے بعد سارے یورپ کے گرجوں سے اوّل درجہ کا خیال کیا جاتا ہے، مگر افسوس کہ شام ہو جانے کی وجہ سے اندر جا کے اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ یہ گاتھک وضع کی عالیشان اور بے مثل عمارت اپنی قدامت کی شان سے شہر کے عین مرکز پر ایک مربع وضع میں کھڑی ہوئی ہے اور پوری سنگ مرمر سے بنی ہے۔ تقریباً پانچ سو سال پیشتر 1385ء میں جان گلیازو پہلے ڈیوک میلان نے اس کو تعمیر کرانا شروع کیا تھا، مگر بنیاد اتنے بڑے اندازہ پر ڈالی گئی تھی کہ جان گلیازو کی زندگی کا وفا کرنا در کنار آج تک تکمیل نہ ہوسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف عہدوں، مختلف مذاق کے کاریگروں کا ہاتھ لگا، جس کی وجہ سے یہ عمارت آج ہر قسم اور ہر مذاق کی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتی ہے اور یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ گاتھک دروازہ اور ردکار میں یونانی وضع کی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ پوری عمارت ایک لاطینی صلیب کی وضع میں نظر آتی ہے جس کا طول 493 فٹ، عرض 177 فٹ، اور بلندی 283 فٹ ہے۔ اس گرجے میں 2 محراب دار ستون، 98 برج اور کلس ہیں اور اندر باہر سب ملا کے 4400 پتھر کی ترشی ہوئی مورتیں نصب ہیں۔ ابھرے ہوئے کام کھدائی اور خوشنما سنگین مورتوں کے اعتبار سے یہ گرجا دنیا کے تمام گرجوں سے بڑھا ہوا ہے؛ حتٰی کہ خود روما کے گرجے سینٹ پیٹرس کی بھی کوئی ہستی نہیں جو بہ لحاظ عمارت کے اس سے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بنا ہوا دہرا راستہ، اس کے ستونوں کی مجموعی خوشنمائی، اس کی بلند محرابیں، اس کی سفید دیواروں کی چمک اور آب و تاب اور چاروں طرف کے بے شمار طاق جن پر ہزار ہا سنگِ مرمر کی ترشی ہوئی مورتیں رکھی ہیں، دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تمام عمارتوں کو بھول جاتا ہے اور اسی قسم کا سماں دکھانے کی اس کی تعمیر میں بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ستون اگرچہ 90 فٹ اونچی چھت کو اٹھائے ہوئے ہیں مگر 8 فٹ کے دور سے زیادہ موٹے نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام ستون کسی چیز کے دیکھنے میں بہت کم حاجب ہوتے ہیں اور اندر کی پوری فضا ہر طرف سے صاف اور کھلی نظر آتی ہے۔ چھت پر گنبد کے عین درمیان میں جناب مریم کی مورت نصب ہے اور ان ہی کے نام پر یہ گرجا نذر کر دیا گیا ہے۔ پیچھے تہ خانے میں ایک زیارت گاہ ہے جس میں سینٹ چارلس بورومیو دفن ہے۔”
“چارلس بورومیو سولھویں صدی میں میلان کا آرچ بشپ یعنی بڑا پادری تھا، مرنے کے بعد ولیوں میں شمار کیا گیا اور آج تک اس کی قبر کی پرستش ہوتی ہے، اس سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں اور دور دور سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔
(ماخوذ از: اٹلی کی مختصر سیر)