ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود کو حکومتی سطح پر اور ادبی تنظیموں نے متعدد ایوارڈز دیے۔ ایک ایسی ہی تقریب میں نیّر مسعود نے جو تقریر کی تھی، وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ان کا اسلوب اور منفرد طرزِ بیان اس تقریر کی خاص بات ہے اور یہی پارے اُن کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادوں کا عکس بھی ہیں۔ نیّر مسعود 2017ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کی تقریر ملاحظہ کیجیے۔
‘سپاس گزار ہوں کہ آپ نے سرسوتی سمّان کے لیے اردو کے ایک گوشہ نشین افسانہ نگار کا انتخاب کیا۔ اس موقعے پر مجھے اپنے کئی دوست یاد آ رہے ہیں جو اب دنیا میں نہیں ہیں۔ اگر وہ ہوتے تو اس وقت مجھ سے زیادہ خوش ہوتے۔ ان میں میرے نوجوان دوست شہنشاہ مرزا (مدیر بنجارا)، بزرگوں میں محمود ایاز(مدیر سوغات، بنگلور)، پاکستان کے مشہور ادیب محمد خالد اختر، اردو کے برافروختہ نقاد باقر مہدی اور عرفان صدیقی مجھ پر بہت مہربان تھے۔ ان کے علاوہ مظفر علی سید، مشفق خواجہ، زینو (صفدر میر)، صلاح الدین محمود بھی اس وقت یاد آ رہے ہیں۔
زندہ دوستوں میں (خدا انہیں بہت دن زندہ رکھے) شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے شب خون کے اوراق میرے لیے شروع ہی سے کھلے رہے۔ اجمل کمال (مدیر آج ، کراچی) نے میرے تقریباً سب افسانے اور کئی مجموعے شائع کیے۔ آصف فرخی اور ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی کو میری تحریروں سے شروع ہی سے بہت دلچسپی رہی۔ محمد سلیم الرحمٰن، پروفیسر شمیم حنفی، انتظار حسین، ڈاکٹر اسلم پرویز، اسلم محمود، اسد محمد خاں اور بمبئی، علی گڑھ اور بہار کے بہت سے دوست ہیں جن کی مہربانیاں میرے شاملِ حال رہیں۔
آخر میں محمد عمر میمن کا ذکر لازم ہے جنہوں نے اپنے انگریزی رسالے اینول آف اردو اسٹڈیز، میڈیسن، کا ایک نمبر میرے لیے مخصوص کر کے مجھ کو مغربی دنیا سے روشناس کرایا اور میرے افسانوں کے انتخابات انگریزی میں ہندوستان اور امریکا سے چھپوائے اور زیادہ تر ترجمے خود ہی کیے۔
بچپن سے لے کر انتالیس چالیس سال کی عمر تک خوشی قسمتی سے مجھے اپنے والد مرحوم پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب کا سایہ نصیب رہا۔ وہ اردو اور فارسی کے جید عالم اور ادیب تھے۔ میرے ذوق کی تربیت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا کتب خانہ ملک بھر میں مشہور تھا۔ اس میں سب کتابیں بڑوں کے پڑھنے کی تھیں، لیکن اپنا شوق پورا کرنے کے لیے میں انہی کتابوں سے دل لگاتا تھا، چنانچہ میں نے دس گیارہ سال کی عمر تک ’ہماری شاعری‘،’آب حیات‘، ’الفاروق‘ اور ’دربار اکبری‘ وغیرہ پڑھ ڈالی تھیں خواہ وہ میری سمجھ میں نہ آئی ہوں۔ والد صاحب بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور نثر لکھنے میں بڑی محنت کرتے تھے۔ اکثر اظہار مطلب کے لیے مناسب لفظ کی تلاش میں کئی کئی دن سرگرداں رہتے تھے۔ میں نثر لکھنا بھی اپنے والد مرحوم ہی سے سیکھا۔
ہمارے یہاں افسانوں کے مجموعے اور بچوں کی کتابیں نہیں کے برابر تھیں، لیکن ہمارے پڑوس میں ناول نگار الطاف فاطمہ کے یہاں ان کا اچھا ذخیرہ تھا اور وہاں مجھے بہت کتابیں پڑھنے کو ملیں۔
بیشتر بچوں کی طرح مجھے بھی کہانیاں بنا کر سنانے کا شوق تھا۔ ان میں سے کچھ بچوں کے رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ پھر نوجوانی کے شروع میں بڑوں کے افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوتے ہوتے ادبی تحقیق میں مصروف ہو گیا اور سنہ 1970-71 تک تحقیقی مضامین لکھتا رہا۔ پھر شمس الرحمٰن فاروقی کے رسالے کے لیے یکے بعد دیگرے پانچ افسانے لکھے جن کا مجموعہ سیمیا کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے افسانے اور تحقیقی مضامین وغیرہ لکھ رہا ہوں۔
سنہ 1970ء کے قریب میں نے ایک مکمل اور مربوط خواب دیکھا۔ محسوس ہوا کہ یہ تو اچھا خاصا افسانہ بن سکتا ہے۔ میں نے اس خواب کو معمولی رد و بدل کے بعد لکھ لیا۔ یہ میرا پہلا افسانہ ”نصرت“ تھا۔ افسانے میں کچھ خواب کی اور کچھ دھندلکے کی کیفیت تھی جو میرے کئی دوسرے افسانوں میں بھی محسوس کی گئی۔ مجھے خود یہ کیفیت بہت پسند نہیں ہے لیکن یہ خود بہ خود آ جاتی ہے، شاید اس لیے کہ میرے بہت سے افسانوں کی بنیاد میرے خوابوں پر ہے، مثلاً ”مارگیر“، ”اوجھل“، ”سلطان مظفر کا واقعہ نویس“، ”ندبہ“، ”اکلٹ میوزیم“، ”شیشہ گھاٹ“، ” علام اور بیٹا“، ”خالق آباد“ خوابوں پر مبنی ہیں۔
اپنی ایک کمزوری کا بھی اعتراف کر لوں۔ میرے سب افسانے میرے شہر لکھنؤ میں اور میرے مکان ”ادبستان“ میں ہی لکھے گئے ہیں۔ باہر کسی جگہ میں نہ افسانہ لکھ سکا ہوں نہ کوئی مضمون یا کتاب۔
کبھی کبھی مجھ سے میرے کسی افسانے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور کبھی یہ کہ افسانے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا اس لیے یہ مہمل ہے۔ میں اس موضوع پر نہ نقادوں سے الجھتا ہوں نہ عام پڑھنے والوں سے۔ مجھے جو کچھ کہنا ہوتا ہے افسانے ہی میں کہہ دیتا ہوں۔ مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ اپنے افسانوں کی تاویل، تعبیر، تشریح خود کروں اور پڑھنے والوں کو بتاؤں کہ میں نے افسانے میں کیا کہنے کی کوشش کی ہے۔
میرے اطراف میں چکن کاڑھنے والی عورتیں، حکیم، عطار، گھروں میں اوپر کا کام کرنے والیاں، راج مستری، مزدور، مٹی کے نازک کھلونے اور برتن بنانے والے کمہار، ہفتہ واری بازاروں میں نقلیں کرنے والے مسخرے اور طلسمی تیل وغیرہ بیچنے والے دوا فروش بہت تھے اور ان سب کی جھلکیاں میرے افسانوں میں موجود ہیں۔ پرانے مکانوں اور درختوں سے بھی مجھ کو بہت دلچسپی رہی ہے۔ ان میں بہت سی چیزیں پہلے تھیں، اب نہیں ہیں، ان کا ذکر کسی ناسٹلجیا کے بغیر اکثر آتا ہے، لیکن میں نے ان میں سے کسی چیز کو افسانے کا بنیادی موضوع نہیں بنایا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے ملک کی تہذیب کا جزو ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ ہمارے افسانہ نگار ادھر بھی توجہ کریں۔
میرے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق کس زمانے اور کس جگہ سے ہے۔ ایسے افسانوں کے لکھنے کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا سوا اس کے کہ ان کا لکھنا مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے۔
ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔’