مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!
بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔
دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔
دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!
(ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)