آٹزم کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ وہ ذہنی حالت ہے جس میں بچے مختلف انداز میں سوچتے ہیں، والدین کو سمجھنا چاہیے کہ آٹزم کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسے بچوں کی زندگی بہتر ضرور کی جاسکتی ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آٹزم اسپیشلسٹ ڈاکٹر فائزہ بھمانی نے ناظرین کو اس کے بارے میں بتایا اور کچھ اہم ہدایات اور مشورے دیئے۔
انہوں نے کہا کہ آٹزم، جسے آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر بھی کہا جاتا ہے، یہ کسی بیماری کا نہیں بلکہ ایک ایسی پیچیدہ کیفیت کا نام ہے جس میں باہمی رابطوں اور رویوں سے متعلق مسائل شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بچے بہت قابل ہوتے ہیں ہمیں صرف ان کی صلاحیت کو ڈھونڈنا ہوتا ہے کیونکہ یہ نہ تو ڈس ایبلٹی ہے نہ ہی سینڈروم اور نہ ہی کوئی دوسری بیماری۔
فائزہ بھمانی نے بتایا کہ آٹزم کے شکار لوگوں کو باہمی روابط یا بات چیت میں مسائل پیش آتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں، جس کے باعث ان کے لیے الفاظ، اشاروں، چہرے کے تاثرات اور لمس کے ذریعے اظہار خیال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر آٹزم کی علامات 3 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ بچوں میں اس کی علامات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہوجاتی ہیں۔
اس کی عمومی علامات میں نظریں نہ ملا سکنا، محدود مشاغل یا بعض موضوعات میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی، ایک ہی عمل بار بار کرنا، جیسے الفاظ یا جملے دہراتے رہنا، آگے پیچھے ہلنا، دوسروں کو دیکھنے اور سننے سے لا تعلقی کا اظہار کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ بولنے، اشاروں، چہرے کے تاثرات، یا آواز کے لہجے کو سمجھنے یا استعمال کرنے میں دشواری پیش آنا، آٹزم کے شکار کچھ بچوں کو دورے بھی ہو سکتے ہیں مگریہ سنِ بلوغت تک شروع نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آٹزم کا کوئی مستند علاج تو نہیں ہے لیکن بر وقت توجہ آٹزم کے شکار بچے کی نشوونما میں نمایاں بہتری لا سکتا ہے، اس مشکل کا حل صرف بروقت تھراپی ہے، اس لیے اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹزم کی علامات ظاہر کرتا ہے تو جلد از جلد اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔