پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور فکشن نگار امرتا پریتم کا ادبی سفر چھے دہائیوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ناول، کہانیاں اور کئی مضامین سپردِ قلم کیے۔ متعدد سرکاری سطح کے اعزازات اور ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ امرتا پریتم کی کتابوں کا انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
بھارت کی اس نام ور ادیبہ کی ایک تحریر سے اقتباس ادب کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
“میں اپنی تحریروں میں ترمیم نہیں کیا کرتی۔ وہی لکھتی ہوں، جو لکھنا چاہتی ہوں۔ اگر کوئی قاری میری تحریروں سے اپنی ذہنی وابستگی محسوس کرتا ہے، تو پڑھے ورنہ کونہ میں ڈال دے۔
ایک بار ایک امریکی مصنف نے ساہتیہ اکیڈمی میں تقریر کی۔ موضوع تھا: مصنف اپنی تحریر کو ہر دل عزیز کیسے بنا سکتا ہے۔ اس کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں قارئین کے اذہان کو ٹٹولنا چاہیے کہ اُن کے مطالبات کیا ہیں اور اپنی تحریروں کو اُن کے مطابق تراشنا چاہیے۔
میرا خیال ہے، جو مصنف ایسا کرتا ہے، وہ سرے سے مصنف ہی نہیں۔ میں فوراً چلی آئی۔ میں ایسی مصنفہ نہیں بننا چاہتی۔ ہرگز نہیں۔
5 دسمبر 1976
(حوالہ: محبت نامے از امرتا پریتم)