وہ کوئی ایسا گہرا آدمی بھی نہیں جس کے اندر تہ خانوں میں اپنے معاشقوں اور آوارگیوں کو پالنے کے لچھن ہوں اور ان تہ خانوں کے چور دروازوں تک رسائی جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو۔ وہ تو پیٹ کا اتنا ہلکا ہے کہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کو اپنے دوستوں، ملاقاتیوں، یہاں تک کہ اپنے مریضوں کو بوالعجبیاں تک سنا ڈالے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے بعض ممنوع ابواب کے علاوہ اور کوئی بات بھی کسی سے نہیں چھپاتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی افتادِ طبع کے باعث چھپا ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے اپنی پارسائی و پاک بازی کا بھی کوئی گھمنڈ نہیں رہا۔ وہ ایک شریف اور مہذب آدمی ضرور ہے۔ لیکن ایسا گیا گزرا بھی نہیں۔ نہ خشک ملّا ہے، نہ بے رنگ سوشلسٹ، نہ صراط المستقیم کی پیمائش کرنے والا مسلمان، نہ اخلاق کا مبلغ، نہ جمالیاتی حس سے کورا فلسفی، نہ جہالت کا دوست، نہ عقل کا دشمن، اس نے منہ زور جوانی کا طوفانی دور بھی گزارا ہے۔ شکل و صورت بھی لاکھوں میں ایک ہے، ہم نے اسے ڈھلتی عمر میں دیکھا اور سچ پوچھئے تو ایک ادیب شاعر یا نظریاتی انسان کے طور پر نہیں (کہ اس وقت تک ہم پر اس کے جوہر نہیں کھلے تھے) بلکہ اپنے خوب رُو دوستوں میں اضافے کے طور پر اسے قبول کیا۔ سرخی سپیدی تو نظرِ بد دور اس ساٹھے پاٹھے دور میں بھی اس کے حسین و جمیل چہرے پر ٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے۔ جوانی میں نہ جانے کیا قیامت ہو گا۔
وہ قیام پاکستان کے بعد لٹ لٹا کر یہاں پہنچا۔ اس وقت وہ سب کچھ ہار کر قلندر بن چکا تھا، لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن فکر و نظر کی روشنی تھی، علم کی دولت تھی، اس نے راولپنڈی میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا، ٹیوشنیں پڑھائیں، کتابوں کی دکان تھنکرز کارنر کے نام سے کھولی۔ آخر برما شیل میں معقول ملازمت مل گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ تبدیل ہو کر پشاور آگیا۔ اس وقت اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک گول مٹول پیارا سا بچہ بھی جنم لے چکا تھا۔ پشاور آتے ہی اس نے یہاں کے اہلِ قلم سے فرداً فرداً مل کر اپنا تعارف کرایا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے نظریاتی رشتوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر ہمیں قریب تر کر دیا تھا۔ دفتری اوقات کے بعد اس کا زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزرتا۔ ان دنوں ابھی اس کے حالات اچھے نہیں تھے لیکن میں نے اسے کبھی حالات کا رونا روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔
زاہدی کے آنے سے پشاور کی ادبی فضا چمک اٹھی۔ تنقیدی نشستوں میں ہماہمی پیدا ہو گئی اور لکھنے والوں میں ایک تخلیقی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک دفعہ مشہور ادبی ماہنامہ’’ساقی‘‘ کے مدیر و مالک شاہد احمد دہلوی مرحوم ایک ریڈیو پروگرام کے سلسلے میں پشاور وارد ہوئے۔ زاہدی اور ان کے نہایت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بلایا۔ پہلی دفعہ زاہدی کا ٹھکانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک شکستہ حال مکان تھا جس میں بجلی تک نہیں تھی۔ گھر کا سامان دو چارپائیوں اور چند ایک ٹوٹے پھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ہم نے ایک بوریے پر بیٹھ کر لالٹین کی مدھم روشنی میں کھانا کھایا۔ لیکن اس کی خود اعتمادی نے بڑا متاثر کیا۔ زاہدی نے نہ تو کوئی معذرت کی۔ نہ شرمندگی محسوس کی، بلکہ اس کی تلافی کچھ اس طرح اپنی سدا بہار مسکراہٹ، جادو اثر گفتگو اور لطیفوں اور چٹکلوں سے کی کہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہ دیا۔ سارے وقت بچوں کی طرح اس کے فلک شگاف قہقہے گونجتے رہے۔
میرے معاشی حالات جو کبھی اچھے نہیں رہے، ان دنوں بھی دگرگوں تھے۔ لیکن زاہدی کی حالت دیکھ کر اپنے مصائب بھول گیا اور وہاں سے جا کر کئی دنوں تک اس آہنی انسان کے عزم اور حوصلے کی داد دیتا رہا۔ مجھے زندگی کے متعلق اس کے اس رویے سے ایک نئی روشنی ملی۔ بعد میں اسی جگہ ہم نے لالٹین کے ٹمٹماتے اجالے میں اپنی زندگی کے بعض نہایت اہم فیصلے کیے۔ دلوں کے چراغ جلا کر بجلی کی کمی کو پورا کیا۔ علم و آگہی کی ضیا سے ذہنوں کو منور کیا۔ اپنی فکری الجھنوں کو سلجھا کر ذاتی اور کائناتی رشتوں کو استوار کیا۔ سماجی شعور اور عصری بصیرت حاصل کی۔ غمِ ذات کی حد بندیاں توڑ کر انسانی سوچ کے ہمہ گیر فلسفے کو اپنایا، اس وقت کہیں جا کر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ زاہدی ان افلاس زدہ حالات میں فلگ شگاف قہقہے لگانے کی ہمّت کیسے کرتا ہے، اپنے ذاتی دکھوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا، اور حالات کی ستم ظریفی نے جو پہاڑ اس پر توڑے ہیں، ان کی شکوہ گزاری کو قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھتا؟
ہمیں اپنی دوستیوں کی وسعت پر بڑا فخر ہے، لیکن زاہدی کے تعلقات کا طول و عرض دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پورے برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی قابل ذکر ادبی سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیت ایسی ہو گی جس سے اس کی اچھی خاصی راہ و رسم نہ ہو، سید مطلبی فرید آبادی سے قائداعظم تک، علامہ اقبال سے احمد ندیم قاسمی تک، علامہ عبدالسلام، نیازی سے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تک، اور مولوی عبدالحق سے دادا امیر حیدر تک سیکڑوں ہزاروں بڑی شخصیتوں کو اس نے اتنے قریب سے دیکھا ہے اور وہ ان کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے کہ اگر اس نے یاداشتوں کا یہ خزینہ محفوظ نہ کیا تو وطن عزیز کی ادبی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ ان عظیم حضرات کے متعلق موجودہ دوستوں میں سے کسی کو بھی صحت کے ساتھ ان تفصیلات کا علم نہیں جن کا عینی شاہد زاہدی ہے۔
زاہدی شروع ہی سے ادب کا ایک ذہین قلم کار تھا۔ اس نے ایک ایسے پُرآشوب دور میں آنکھ کھولی جب برصغیر میں جنگ آزادی کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی اور انگریز سامراج کی غلامی سے گلو خلاصی کے لیے ہر نوجوان دار و رسن کی آزمائش سے گزرنے کو بے تاب تھا۔ پھر تلاشِ روزگار کے لیے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ شہر شہر قریہ قریہ سرگرداں پھرتا رہا۔ اس آوارہ گردی میں اسے محنت و سرمایہ کی کش مکش کا نہایت تلخ تجربہ ہوا‘ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اس زہر کو اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ پھر تقسیمِ ملک کے ساتھ ہی مذہبی اور نسلی فسادات کے الاؤ سے گزر کر وہ پاکستان پہنچا۔ آگ اور خون کے اس سیلاب میں اُس نے ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور پُر امن گھرانوں کی بربادی کے مناظر نے اس کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
پاکستان آ کر اسے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی کمینگیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ خوف ناک واقعات ایک ہوش مند انسان کو پاگل بنانے کے لیے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن اس کی سوچ ایک ترقی پسند دانشور کی سوچ تھی۔ انسانی شرف پر غیر متزلزل یقین اور اس انقلاب میں کشت و خون کے اقتصادی، معاشی اور طبقاتی اسباب کے شعور نے اسے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیا اور وہ محنت و ہمّت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کے لیے ایک نئی زندگی کے آغاز کا سہارا بنی۔
زاہدی ایک عرصے تک افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور نقاد کے طور پر ادبی حلقوں سے متعارف رہا۔ پھر اچانک اُس نے رباعیات و قطعات لکھ کر لوگوں کو چونکا دیا۔ پھر اس کی نظمیں اور غزلیں چھپنے لگیں۔ میں اس کی ادبی، سیاسی، سماجی بصیرت اور غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ہمیشہ قائل رہا، لیکن مجھے اس کی شعر گوئی کے متعلق کبھی حسنِ ظن نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ اس کی رباعیات میری نظر سے گزریں تو سب سے زیادہ اچنبھا مجھے ہوا اور میں نے اسے لکھا۔ ’’شاعری کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کرو، نثر تمہارا میدان ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو، اسی میں تمہارا بھلا ہے۔‘‘میرے اس فقرے نے جیسے اس پر تازیانے کا کام کیا اور وہ زیادہ زور و شور اور پوری لگن سے لکھتا رہا۔ اور آخر رباعیات و قطعات میں اس نے اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیا۔
پھر ماہنامہ کتاب میں اس کے چند ادبی خاکے سامنے آئے تو دوستوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ خاکے نہ صرف بھرپور اور معلومات افزا تھے بلکہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بھی تھے۔ زبان کی چاشنی کے علاوہ ان خاکوں میں زاہدی کا غیر معمولی سیاسی و سماجی شعور رچا بسا تھا۔
زاہدی کی صحبت گزرے ہوئے دنوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندی کے جراثیم پہلے سے میرے اندر موجود تھے اور اپنے معاصرین سے میری سوچ خاصی مختلف تھی لیکن اس نے مجھے انسانی قدروں سے روشناس کرایا، قلم کے استعمال میں اپنی ذمے داری کا احساس دلایا، فنی سفر میں نئی روشنیوں کی راہ دکھائی اور میری سوچ کو وسعت دے کر بے کراں بنا دیا۔
(معروف ادیب، شاعر اور نقّاد فارغ بخاری کے مضمون سے چند اقتباسات جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور دوست مقصود زاہدی کے فن اور شخصیت کو پیش کیا ہے)