قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سب کمیٹی کا اجلاس کنوئنیر امین الحق کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں میڈیا ورکرز کے حقوق اور ان کے مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ اجلاس میں کمیٹی نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے میڈیا اداروں سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی جائے۔
کنوئنیر امین الحق نے کہا کہ میڈیا آرگنائزیشنز کو صحافیوں کی تنخواہیں پہلے ادا کرنی چاہئیں۔ اور پھر اشتہارات کی آمدنی پر بات کی جائے گی۔ صحافیوں کے مسائل کا حل میڈیا چینلز کی ذمہ داری ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔
پی ٹی وی کی حالیہ بھرتیوں پر گفتگو کرتے ہوئے سحر کامران نے کہا کہ پی ٹی وی پر ہونے والی نئی بھرتیوں کے پیکجز پر سوالات اٹھائے گئے۔ کیونکہ ایک طرف ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ اور دوسری طرف حکومت نئی بھرتیاں کر رہی ہے۔
سیکرٹری انفارمیشن امبرین جان نے کہا کہ اگر پی ٹی وی نے معروف شخصیات کو نہ بھرتی کیا تو پی ٹی وی کی ریٹنگ میں مزید کمی آئے گی۔
سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پی ٹی وی میں یوٹیوبرز ہائر کیے گئے ہیں۔ جن کو ویوز بڑھانے میں مشکل ہو رہی ہے۔ تو وہ کیسے پی ٹی وی کی ریٹنگ کو بہتر کریں گے؟
سیکرٹری انفارمیشن امبرین جان نے اپنے جواب میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پی ٹی وی کے دو چینلز، پی ٹی وی اسپورٹس اور پی ٹی وی ہوم ہی منافع کما سکتے ہیں۔ لیکن ہوم چینل پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی۔
امین الحق نے کہا کہ پی ٹی وی میں سیاسی بھرتی نہیں ہونی چاہیے۔ اور ادارہ عوام کا اعتماد دوبارہ بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ 4 ہزار ملازمین پی ٹی وی میں کام کر رہے ہیں اور یہ ادارہ بھی دوسرا پی آئی اے بن چکا ہے۔
سحر کامران نے کہا کہ پی ٹی وی پر عوام کی توجہ ختم ہو گئی ہے۔ اور ٹاک شوز کے دوران کھل کر بات نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے اگر کوئی ہمیں بلاتا بھی ہے تو ہم نہیں جاتے۔
کمیٹی نے پیمرا کے حکام سے حاصل کی گئیں تفصیلات میں انکشاف کیا کہ اے آر وائی کا لائسنس 2018 سے رینیو نہیں ہوا۔ کمیٹی نے وزارت اطلاعات کو اے ٹی وی اور شالیمار ٹی وی کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔
میڈیا میں صحافیوں کو تنخواہیں نہ دینے کے معاملے پر سخت ہدایات جاری کیں۔ اور کہا کہ صحافیوں کو بغیر تنخواہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
جو ادارے صحافیوں کے تنخواہ نہیں ادا کر رہے ان کے خلاف وزارت اطلاعات و نشریات کو ایکشن لینا چاہیے۔ حکومت کی جانب سے ان کے اشتہارات بند ہونے چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کچھ اخبارات دو لاکھ اے بی سی رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم ان اخبارات کی سرکولیشن کم ہو گئی ہے۔ اور بعض اخبارات نے ملازمین کی تعداد میں کمی کے باوجود پچھلے اے بی سی سرٹیفکیٹ پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔
سحر کامران نے نشاندہی کی کہ بزنس بڑھانے کے لیے بعض اخبارات اپنے فیملی ممبرز پر چلائے جا رہے ہیں۔ اور اس کے پیچھے ذاتی مفادات شامل ہیں۔ جس کے لیے کمیٹی نے ایک خاص میکنزم بنانے کی تجویز دی۔
علی معظم نے سوال اٹھایا کہ اربوں روپے کے اشتہارات کے باوجود اخبارات اپنا آڈٹ کیوں نہیں کرواتے۔
کمیٹی نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کی کہ جو میڈیا آرگنائزیشن صحافیوں کو تنخواہیں نہیں دے رہیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اور اس معاملے پر مزید اقدامات کے لیے تجاویز پیش کرنے کا کہا۔
کنوئنیر امین الحق نے اعلان کیا کہ تمام بریفنگ کو مرکزی کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔ اور حکام کو دوبارہ بات کرنے کا موقع دیا جائے گا۔