بادشاہت صدیق پرانی ہے اور جب بادشاہ چارلس سوم یا ملکہ الزبتھ دوم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے خاص لباس پہنے محافظوں کا خیال بھی آتا ہے۔
یہ محافظ اپنی وضع قطع سے بہت زیادہ منفرد ہیں اور 1800 کی قربانیوں سے لڑ رہے ہیں۔
لیکن آخر یہ محافظ سرخ قمیض اور سیاہ ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟
یقین کرنا مشکل ہے لیکن یہ وہ وردی ہے جو برطانیہ کی مخالف فوجوں کو ڈرانے کے لیے چلا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق لمبے چوڑے سپاہی کے بارے میں زیادہ سوچنے والے نظر آتے ہیں اور اسی کو بند کر کے فرانس سے جنگ کے لیے سپاہیوں کے لیے لباس تیار کیا ہے۔
ان سپاہیوں کی ٹوپیوں کو بیئر اسکنز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ریچھ کیل سے بنی ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے خطے کے ریچھوں کو استعمال کیا جاتا ہے جن کی مخصوص تعداد کو ہر سال مارا جاتا ہے تاکہ ریچھوں کی آبادی کنٹرول میں رہ جائے۔
یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 18 سال کی اس ٹوپی کے لیے خاص طور پر کسی ریچھ کو مارا نہیں جاتا۔
سپاہی ہر فوج سال 50 سے 100 ایسی ٹوپیاں خریدتی ہیں اور ہر ایک کی قیمت 90 ڈالرز ہوتی ہے۔
اسی طرح ٹوپ پہننے والے سپاہی ذمہ داری ادا کرتے ہیں جیسے بکنگھم پیلس میں محافظوں کی تبدیلی یا بادشاہ ملکہ کی سال پر ہونے والی پریڈ میں ادا کرنا۔
درحقیقت یہ سب بولے جن کی خدمات کچھ قیمت کے لیے شاہی محل کے حصول کی جاتی ہیں۔
یہ سپاہی گرمیوں میں سرخیوں میں جبکہ سردیوں میں گرے کوٹ پہنتے ہیں اور ماہر کے مطابق سرخ رنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں تاکہ اس کی قیمتوں کی بچت ہوسکے۔
انہوں نے بتایا کہ سرخ رنگ سب سے سستا اور آسانی سے تیار ہونے والا رنگ ہے جبکہ میدان جنگ میں اس سے دشمنوں کو شناخت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ان محافظوں کا کردار اہم ہے اور یہ لندن میں سیاحوں کا مرکز بھی بنتے ہیں۔