0

چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی، آپ نے وہ دیکھی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

کراچی میں 55 لوگ مر گئے ، کمیشن والے تقریر جھاڑ رہے ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی، ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں، 15 نومبر 2023 کا ہمارا آرڈر بھی پڑھیں، آپ 2019 کا آرڈر پڑھ رہے ہیں، 2023 والا آرڈر پڑھیں، آگے بھی پڑھیں پاکستان بنتا کیسے اور تباہ کیسے کیا جاتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے 15 نومبر 2023 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سب 2007 میں شروع ہوا اور ہم 2024 میں پہنچ گئے، پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے، احتجاج کرنا جمہوری حق ہے لیکن کمیشن نے کیا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک شخص کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، کراچی میں 55 لوگ مر گئے، کوئی بات ہی نہیں، 9 سال کا بچہ مر گیا کوئی بات ہی نہیں، کمیشن والے تقریر جھاڑ رہے ہیں، نہ آپ پارلیمان ہو نہ حکومت، آئین تو شہریوں کو نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے، یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پنجاب سے اسلام آباد آ ہی نہیں سکتے، کون ہے وہ شخص رانا ثناء اللّٰہ؟مجھے تو یہ رپورٹ پڑھ کر تعجب ہو رہا ہے، جملہ تو کم از کم صحیح بنا لیتے کہ کس نے یہ خلاف ورزی کی ہے، یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ کس نے یہ خلاف ورزی کی؟ ان کو پالیسی اور حلف میں فرق کا نہیں پتہ؟

کتنا خوبصورت اتفاق تھا سب نے نظرِ ثانی درخواستیں واپس لے لیں

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہجوم پتھراؤ کر رہا تھا، گاڑیوں کو آگ لگا رہا تھا، آپ کی اس میں کوئی مداخلت نہیں تھی، ان کو بتانا چاہیے کہ اگر آپ آئی جی پر ذمے داری ڈال رہے ہیں تو لکھتے، کون تھا اس وقت آئی پنجاب؟ کمیشن نے کچھ نہیں لکھا، یہ کس قسم کی رپورٹ ہے؟ کمیشن نے کیا لکھا؟ اے بی سی ہی لکھ دیتے، رپورٹ میں ایک طرف وفاقی حکومت اور پھر صوبائی حکومت لکھا ہے، ڈنڈے مارنے چاہئیں یا گولیاں مارنی چاہئیں؟ کیا کرنا چاہیے؟ اس میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی، یہ کوئی سفارشات تو دے دیتے، ہم کیا قانون سکھا رہے ہیں۔

جسٹس فائز نے کہا کہ انگریزی محاورے استعمال کرنے ہیں تو صحیح تو استعمال کر لیں، یہ کیا ہے، ان کا اِن پٹ کیا ہے؟ کمیشن نے کہا کہ پاکستان میں قانون موجود ہے، عمل کر لیں، اچھا بھئی پھر آپ نے کیا کیا ہے؟ کمیشن نے پوچھا چوری تو نہیں کی ،انہوں نے کہہ دیا نہیں کی۔

ہمیں بہت مایوسی ہوئی، کیا ٹی ایل پی کی جانب سے کسی کو بلایا گیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درامد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے، انہوں نے کہا کہ قانون پڑھا دیتے ہیں، کتنا خوبصورت اتفاق تھا سب نے نظرِ ثانی درخواستیں واپس لے لیں، کیا نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے والوں سے پوچھا؟ پوری رپورٹ میں کہیں لکھا ہے کہ ہم نے ان کو بلوایا ہے؟ ان کو گھر پر سوالات بھجوا دیے، ہمیں بہت مایوسی ہوئی، کیا ٹی ایل پی کی جانب سے کسی کو بلایا گیا؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ ٹی ایل پی کی جانب سے کسی کو نہیں بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی ایل پی والوں کو ہی کو بلا لیتے، وہ شاید مدد کر دیتے، ٹی ایل پی اس کیس میں ایک فریق تھی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ جن سے اسلحہ برآمد ہوا ان کو بھی نہیں بلایا گیا۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ جنہوں نے کھانا اور ناشتہ دیا ان کو تو بلا لیا گیا، اگر نہیں بلایا تو ٹی ایل پی والوں کو نہیں بلایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کو ٹی ایل پی کو بلانا چاہیے تھا، ان کا مؤقف آنا ضروری تھا، کمیشن کے لوگ آفس سے تو نکلیں ہی نہیں، یہ کہاں بیٹھے تھے، کمیشن کے لوگ تو کہیں گئے ہی نہیں، رپورٹ بیٹھے بیٹھے دے دی، محاورے پر محاورے بنا کر رپورٹ دے دی، کمیشن 12 مئی کے دھرنے کو گول کر گیا، پتہ نہیں یہ کدھر سے آ گئے ہیں لوگ، کمیشن نے بس گھسے پٹے محاورے جوڑ کر رپورٹ بنا دی۔

تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا پالیسی تھی؟ ہم نے تو جنرل فیض کا نام نہیں لکھا تھا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا پالیسی تھی؟ یہ اتنے بااثر شخص سے کیسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟ جنرل فیض کا کتنی مرتبہ انہوں نے حوالہ دیا ہے، یہ تو لگتا ہے صرف جنرل فیض کو بری کرنے کے لیے یہ سب کرنا تھا، ہم نے تو جنرل فیض کا لکھا نہیں تھا، انہوں نے جنرل فیض کو کتنی مرتبہ بلایا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جنرل فیض کو ایک مرتبہ بلایا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کمیشن کیسے قانون سازی کا کہہ رہا ہے۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ جنرل فیض کو سوال نامہ بھیجا گیا تو ان کا جواب آیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینئر بیوروکریٹ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے، پتہ نہیں یہ کس قسم کی رپورٹ ہے، رپورٹ میں کوئی ایک چیز بتا دیں، ایک ڈی جی سی آ کر کہہ گیا کہ میرا یہ مینڈیٹ ہی نہیں، یہ مینڈیٹ نہیں تو پھر رپورٹ میں لکھنا چاہیے تھا، آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کا ذکر کررہے ہو، پھر آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کو بری کر رہے ہو۔

سینئر بیوروکریٹ کو پتہ ہی نہیں ، سسٹم کیسے کام کرتا ہے ، چیف جسٹس

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ میں میرا بھی ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے بتایا کہ جنرل فیض نے ان سے رابطہ کیا، رپورٹ میں کہا گیا کہ ابصار عالم سے جنرل فیض کے رابطے کا ثبوت نہیں، جبکہ ابصار عالم کہہ رہے ہیں کہ رابطہ کیا ہے، اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ رابطہ نہیں کیا تو کمیشن جنرل فیض کو بلا لیتا، کمیشن والے جنرل فیض اور ابصار عالم کو آمنے سامنے بٹھا لیتے، کمیشن والے ان سے سوال جواب کرتے اور نتیجہ لکھ دیتے، ایک کو مسترد کر دیں اور دوسرے کو مان لیں یہ درست نہیں، اگر ابصار عالم پر یقین نہیں کر رہے تھے تو ان سے سوال جواب کرتے۔

سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا کہ میرے بارے میں کمیشن آدھا مان رہا ہے اور آدھا نہیں مان رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی کی فنانسنگ کو دیکھنے سے متعلق یہ کہہ رہے ہیں ان کا کام نہیں، اہم متاثرہ فریق ٹی ایل پی تھی اس سے بھی کچھ نہیں پوچھا، ہم جنرل فیض کو نوٹس کر دیتے ہیں کہ اس کو مانتے ہیں یا نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو 15 دن میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply