0

”شہدائے صحافی” کا بڑھتا قافلہ

ہر سال ہم ”عالمی یوم آزادی صحافت” کے اِس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ شاید کوئی سال بھی ایسا آئے جب صحافیوں اور صحافیوں میں کمی آئے لیکن 20، 22 سال میں ایسا نہیں ہوتا جب کوئی صحافی نہیں مارا جاتا۔ گیا ”شہدائے صحافی” یہ قافلہ بڑھتا ہی چلا گیا اور مجال کسی قاتل کو سزا ہوئی جن کو چار کیسوں میں سزا ہوئی وہ بھی ”ماشاء اللہ” بری ہو گئی۔ وہ جوعبید اللہ علیم نے کہا تھا۔

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الّم گزار رہے ہیں۔

میرے لوگ میرے شہر جل رہے ہیں۔

میں بھی سوچتا ہوں کیونکہ آج چند سال پہلے سندھی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین اخبار ‘منیر سانگی’ کی بیوہ کو عدالتی کراچی میں اپنے شوہر کی کیس فائل کرنے سے روکا جا سکتا ہے اور وہ آپ کے لیے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ عدالت سے فائلوں میں موجود ہے۔

سوچتا ہوں نہ جانے ہمارے ساتھ اور اینکر ارشد شریف کیوہ اور والدہ کو انصاف کے لیے اور انتظار کرنا ابھی تو اُس کی شہادت کو سات ماہ ہی گزرے گا۔ نہ جانے کیوں تگ و دو دیکھی جائے گی اور جے آئی ٹی بنیں گے اور حق رائے دہی کمیشن بنیں گے۔

بے کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

ارشد کے والدہ اب بھی اُسدستک کے جواب کا انتظار کرتے ہیں جو انہوں نے انصاف کے لیے دیا۔ بیٹا تو اب واپس نہیں آسکتا اس کا پتہ چل جائے کہ اُس کا قصور کیا تھا اور اتنا سنگین جرم تھا کہ پہلے اُسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور پھر اِس ملک میں مارا گیا جو دُنیا میں جرم تھا۔ جہاں کے حوالے سے سرفہرست ہے جہاں کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں یہ کام اُجرت کے عوض کرنے میں کمال شاندار ہے۔ ہمارے اعلیٰ عدلیہ نے بڑے جوش و خروش سے یہ یقین دلایا تھا کہ قانون کے لمبے ہاتھ قاتلوں تک ضرور پہنچیں گے لیکن تاحال وہ ہاتھ نہیں آرہے ہیں کیونکہ تمام شہر پہنے ہوئے ہیں۔

صحافیوں کی ایک طویل فہرست میں جن میں اِس حالت میں نوجوان اِس پنجاب اور بلوچستان کے عزم کا اظہار کرنے والے تھے اور کچھ نہیں کہا تو کم از کم پاکستان کو یہ بتانے کے بعد کہ اُن کے بارے میں بات کرنا پسند ہے۔ جو ہمارا میڈیا نہیں دکھاتا۔ یہاں صرف ”شہداء کا قافلہ” ہی نہیں معلوم لوگوں کا بھی لمبا قافلہ۔ اب نہ جانے کتنے صحافیوں کے والدین، بیوائیں اور بھائی ہمت کے انصاف کے جواب پر دستک دی لیکن آج تک کسی کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، یہ یقین دلایا نہیں جاتا کہ ”تحقیق” سمجھو۔ ۔

بلوچستان کے علاوہ اگرکوئی خیبرپختونخوا سے زیادہ متاثر ہوا تو وہ (کے پی پی) یہاں 2005ء میں ایک صحافی حیات اللہ مارا گیا تو اُس کی بیوہ نے ہم کو انصاف دلانے کا یقین دلایا تھا کہ ”تم تعاون کرو، انصاف نہیں” وہ اور جوڈیشل کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا۔ لوگ تھے مارنے والے، شناخت کے لیے بھی تیار تھے۔ یہ ہی اُس کی موت کا پروانہ بن گیا اور وہ بھی ”شہدائے صحافی” کے قافلے میں شامل بیان۔ وادیِ سوات بھی اِس محفوظ نہ رہ سکے اور یہاں ویب سائٹ پر خون کی ہولی کھیلی گئی اور کئی صحافیوں کے قاتل شناخت کے نشان نہ پکڑے گئے، وہ پکڑے گئے۔ موسیٰ خان خیل کی وہ تصویر اور وہ بیپر آج بھی مجھے یاد ہے جو اُس نے جیو پر دیا۔

پاکستان میں صرف یہ دو صوبائی صحافیوں کے خون میں لت پت نہیں ہیں خود مختار اسلام آباد آج سب سے زیادہ غیر محفوظصحافیوں اور صحافیوں کے لیے بھی۔ ایک ارشد شریف ہی کیا میرے شہر کراچی کا نوجوان سلیم شہزاد اسلام اس کے لیے منتقل ہوا تھا کہ شاید ”وفاق” زیادہ محفوظ جگہ پر ”محفوظ” شہر سے بھی اُٹھا لیا گیا پھر منڈی بہاؤ الدین۔ نہر” سے اُس کی لاش ملی۔ مجھے آج بھی یاد ہے اُس کی بیوہ کا فون جو اُس کے دوسرے دن مجھے آیا۔ بعد میں تو اُسے تسلی دینے کے لیے بھی دلالت نہیں کرتا۔ ایک کمیشن بھی بنا کمیشن کے چھوٹے ہاتھ قاتلوں کو لمبے طاقت تک نہ پہنچانے کے لیے۔پچھلے دن ولی خان بابر کے بھائی سے بات ہوئی۔ کیس فائل اِس نوجوان رپورٹ کے قتل کی بھی بندش۔ جیو کا یہ نوجوان رپورٹر بہیمانہ طریقے سے مارا۔ مشتعل قاتل بھی چلے گئے، چلا بھی گیا اور بریت بھی۔ یہ اپنی منزل کا اندازہ واحد تھا جس سے سات کردار بھی مارے جاتے تھے۔

میں نے کہا کہ ’’شہدائے صحافت‘‘ کا قافلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے کہ کسی وجہ سے مارا ہے لیکن اِن 120صحافیوں کے قاتل اب بھی آزاد ہیں، وہ بھی جب تک ہم صحافی ہیں۔ مارو ہمیں کچھ نہیں کہا لیکن یہ خبر نہیں کہ ہر صحافی کی موت قوم کی حیات ہے کہ اِدھر شہدائے صحافت میں اُدھر ہرسال صحافیوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ وہ قاتلوں کو دکھاتے ہیں۔ یہ نوجوان جان پر نکلے بغیر خبر کی لگن میں پڑھتے ہیں اور میں کوئی تیار نہیں ہوتا۔

”آزادی صحافت” عالمی دن کے موقع پر کس کو تسلی دوں کہ یہ واقعہ رونما ہو جائے۔ اِن شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ اپنے اظہارِ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ قاتلوں کے قتل اور قتل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لاتے۔ آج صحافی آزاد نہیں ہے۔ پرنٹ سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے لیکن اس دور کے تاثرات میں ایک مؤثر طریقے سے سامنے آنا ضروری ہے۔ کاش جنجال سے اس قانون کا سہارا لے کر سوشل میڈیا کے لوگ تیزی سے کوشش کر رہے ہیں کہ اسی طرح صحافیوں کے قاتل بھی مارے گئے تو شاید ”شہدائے صحافت” کی طرف سے آگے نہ بڑھنے یا تیزی سے کم نہ ہو۔ یہ سال ارشد شریف کے نام۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply