نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا مبارک باد مستفتی ہیں کہ انہوں نے چند دن میں بہت زیادہ پریس کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ اور ان پر زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ تم اب بھی برداشت کر رہے ہو لیکن ڈاکٹر پر خزاں کا موسم اترا ہے۔
بندہ قصور کا ہو یا ملتان کا پریس اس کی نیشنل پریس کلب میں ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے۔ ڈرائی کلین کی جدید مشین اسلام آباد میں لگی ہو تو چھوڑنے والے ایک ہی طرح کا پیغام پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، میں تحریک انصاف سے الگ ہو رہا ہوں۔ کوئی کہتا ہے میں سیاست چھوڑ رہا ہوں۔ بس یہ دیر ہے کہ کیس ختم ہو جائے گا، بندہ سے دھل جاتا ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے طوطے اور طوطیاں رٹہ پڑھتے ہیں۔
منصوبہ سازوں کے سبق کے مطابق اکثر لوگ کاغذی پیغام پڑھتے ہیں اور کچھ ای پیغام پڑھتے ہیں۔ پارٹی کو چھوڑنے والے کے چہروں پر ندامت، کسی کی بات آنسو اور کی صورت میں کوئی بیان خوف نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف چھوڑنے والے نے جہاں خود کو مذاق بنوایا ہے وہ پارٹی کا بھی مذاق اڑاوایا ہے۔ سیف اللہ نیازی کا پتہ نہیں لگتا کہ آپ نے صرف 49 کی پریس کانفرنس میں کہا تھا۔ فواد چوہدری نے تو گھر سے نکلنا ہی مناسب نہ سمجھا، ٹویٹ پر ہی اکتفا کیا ۔ سب سے زیادہ رقت آمیز لمحات حمزہ شہباز شریف کے برادر نسبتی مراد راس اور ابرار الحق کی پریس میں نظر آئے۔
مراد راس کے پر خوف کی لہروں کے اثرات صاف دکھا رہے تھے۔ ابرار الحق کا بیان بھی ان کو دیکھ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ پولیس نے پتہ نہیں کیا کہ شیری پر کس طرح گھناؤنے کام دکھائے جو ملکی ندا کا بن سکتے ہیں۔
مجھے پی ٹی آئی چھوڑنے والے لیڈر پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ کس قدر حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہم نکلتے ہیں۔ ان چوری کھانے والے طوطے اور طوطیوں کو دیکھ کر مجھے اپنے گاؤں میں کہتے ہوئے امرود، جامن اور آم کے درخت یاد آتے ہیں۔ ان درختوں پر اکثر طوطے اور طوطیاں آکر کچے پکے پھل خراب کر جاتے ہیں۔ ان کو اڑانے کے لیے ایک آواز ہی کافی ہوتی ہے۔ ایک آواز سے تحریک انصاف کو چھوڑنے والے لوگوں کے مقدمات ختم ہو گئے، انہیں جدید ترین ڈرائی کلیننگ سے سہرا بنا دیا گیا لیکن وہ لوگوں کے دلوں میں ہار گئے۔ وہ آپ کے دوست یا رہنما جو بہادری سے قید کاٹ رہے ہیں، سختی سے برداشت کر رہے ہیں، ظلم سہنے والے ان لوگوں کے دل جیتنے کے لیے۔ انہوں نے خود کو اندھیری رات میں لا جواب چراغوں کی طرح پیش کیا۔ ابھی جب میں ان باوفا کو دیکھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے۔ طویل لانگ مارچ کے دوران ماؤزے نے اپنے کامریڈ کے ساتھ سوال کیا، ہم نے کہا ہے کہ؟ ایک آپ کو کامریڈ بولا پہلے ہم لوگ میں تھے اور اب متبادل میں، اس کا مطلب ہے کہ ہم آپ گئے ہیں۔ ماؤ نے کہا کہ ہم پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے تھے کیونکہ جتنے بھی عناصر تھے وہ ہمیں چھوڑ کر اب صرف مضبوط افراد رہ گئے۔
عمران خان کی شخصیت بڑی باکمال ہے۔ مثال کے طور پر حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنما کے پاس عمران خان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ حکومت میں پارٹیوں کا کوئی جلسہ، سیمینار، کوئی عمران خان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
عمران خان تو قومی اسمبلی اور پارٹی میں نہیں لیکن قومی اسمبلی میں موجود عمران یا حکومتی پارٹی، ہر رکن اسمبلی خان کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ مولانا وزراء کبھی چہروں کے ساتھ اور کبھی اترے ہوئے چہروں کے ساتھ عمران خان کا ذکر نہیں کرنا۔ ٹی وی کا کوئی پروگرام ذکر عمران خان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اخبارات میں بھی حالت
پاکستان میں بازاروں، بازاروں اور ڈرائنگ روموں میں عمران خان کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ گویا وہ دوست اور دشمن میں مقبول ہیں۔ ان کے تذکرے کے بغیر تو خفیہ میٹنگ ہوتی ہے نہ خفیہ پلانز بنتے ہیں۔ منصوبہ بندی کرنے والے بھی اسی کا ذکر کرتے ہیں۔ عدالتوں میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آپ میڈیا بھی اس کی باتیں سناتا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس کے حوصلے پست نہیں ہیں۔ عمران خان کہتا ہے، بے شک لوگوں کو ٹی آئی چھڑوا لو پر موجود کرواؤ۔ حالیہ حالات میں لوگوں کے خیالات کو وصی شاہ کے شعر کے بیان کیا ہے؟
اس سے کرانیاں ہیں۔
دل کی دھڑکن بحال تو ہو جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔