0

سب ادارے آئین کے تابع ہیں، فرد واحد پاکستان کو کنٹرول نہیں کر سکتا: مشیر وزیراعظم

پانامہ کیس میں آئین و قانون کی نامہ کی خلاف ورزی کی گئی، آئین میں تاحیات کے مقابلے میں شریف کو ذکر نہیں کیا گیا لیکن تاحیات کیا گیا: عرفان قادر۔  فوٹو فائل
پانامہ کیس میں آئین و قانون کی نامہ کی خلاف ورزی کی گئی، آئین میں تاحیات کے مقابلے میں شریف کو ذکر نہیں کیا گیا لیکن تاحیات کیا گیا: عرفان قادر۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: فرد تابع کے معاون خصوصی عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سب ایجنسی آئینی ہیں اور کوئی واحد پاکستان کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرف قادر کا کہنا تھا کہ آئینی کوقیت دینی، دنیا جہاں ہمیں بھی انتخابی اداروں پر اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئین پاکستان میں حکمرانی صرف کی ہے۔ آئین کی عزت و تکریم

انہوں نے کہا کہ ہرگز یہ ذمہ دار نہیں ہے کہ سیاسی عدالتوں کو دنیا کو پہنچایا جائے، براہ راست کسی عدالت کو جواب دیا جائے، وہ بھی ایک وقت جب پاکستان میں انجینئرنگ ہوئی، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی حکومتوں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ گھر بھیجنا

ان کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس میں آئین اور قانون کے خلاف ذکر کیا گیا، آئین میں تاحیاتی کا مقابلہ نہیں کیا گیا لیکن نواز شریف کو حل کیا گیا، آرٹیکل 62، 63 میں قانونی فورم کی بات کی گئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نواز کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت کے خلاف عدالت میں یوسف رضا گیلانی کا فیصلہ صریحاً قانون تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے حکم امتناعی لیا گیا، پنجاب اسمبلی میں منحرف انتخابات کے انتخابات کو مزید شمار نہیں کیا گیا، اس طرح پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت گرا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا حق نہیں، صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کے خلاف آئین۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ کسی کو آئین کو رائٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ہر تنظیم کے حدود آئین میں درج ہے، جو اس قانون کے خلاف ہوتا ہے اس پر عمل نہیں ہوتا، انتخابات کی تاریخ عدالت ہی نہیں دے سکتی۔ پک اینڈ چوز سے بنچ نہیں بنتے۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ عدالت کو عدالت کی تاریخ قرار دینے کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں 9 ججز تھے، 2 ایک ساتھ اور 4 ججز نے اپیل کو مسترد کر دیا، تین ججز نے اپیل کو قابل اعتراض قرار دیا۔ یا حکومت ہرگز عدلیہ کے خلاف نہیں، عدلیہ کے ساتھ سوال کر رہے ہیں، عدلیہ بھی اپنے افہام و تفہیم سے فیصلہ کرے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت عدلیہ کو سختی کرنا چاہتی ہے، اگر عدلیہ کے کوئی تفریق ججز خود ہیں۔ اسے ختم کرنا ضروری ہے اور جواب طلبی کو حل کریں، نہ ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اور پی آئی اے سوال پر۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی آئینی عدالت کو بہتر کرنا چاہیے، آئینی عدالتوں کو شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو لینا چاہیں، غیر ملکی پارلیمنٹ، میڈیا کے لوگ، وکلا ججوں کو آئینی عدالت میں لینا چاہیں۔ ، میں درج ذیل کے ساتھ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Leave a Reply