لندن : شوگر کے مریضوں کیلئے تیار کی گئی دوا ’اوزیمپک‘ کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ صرف ذیابیطس کے مریض ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے موٹاپے کو کم کرنے اور اسمارٹ رہنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی اس کے چرچے ہورہے ہیں، یہ دوا وزن کم کرنے میں اتنی مؤثر ہے کہ اس کی برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک میں کمی ہوگئی ہے، ماہرین صحت کی جانب سے خبردار کرنے کے باوجود دوا کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دوا کے انتہائی خطرناک مضر اثرات ہو سکتے ہیں، کئی جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جونہی اس دوا کی خوراک لینا بند کی گئی تو وزن دوبارہ بڑھ گیا۔
دوسری جانب اس مہنگی دوا کی آن لائن خریداری بھی عروج پر ہے وہ امیر برطانوی افراد جو موٹاپے کا شکار ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس دوا کے استعمال سے ان کے وزن میں نمایاں کمی آئی ہے اسے خریدنے کیلئے وہ ہزاروں پاؤنڈ آن لائن ادا کرسکتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق لندن کے کنگز کالج میں فارماسیوٹیکل میڈیسن کے وزٹنگ پروفیسر پینی وارڈ نے بتایا کہ برطانیہ کے میڈیکل ریگولیٹری اداروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹروں کو ایسی دوائیں تجویز کرنے سے روکیں جو ان کے خیال میں انفرادی مریضوں کے لیے مددگار ثابت ہوں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال امریکا میں بھی ہے جہاں ریگولیٹر کے پاس طبی ماہرین کو ادویات تجویز کرنے سے روکنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
نجی آن لائن فارمیسی سے 26 اکتوبر کو کی گئی ایک ای میل میں ترجمان نے کہا کہ یہ دوا صرف ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے تجویز کی جانی چاہئیں تاکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے سپلائی کو محفوظ رکھا جاسکے اور وزن میں کمی کے لیے انہیں معمول کے مطابق تجویز نہیں کیا جانا چاہیے۔
نیشنل ہیلتھ سینٹر سے وابستہ ماہر ذیابیطس اینڈو کرائنولوجسٹ بین فیلڈ کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی بھی ادویات کی فراہمی میں اس طرح کا بحران نہیں دیکھا، جس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس والے لوگوں کے علاج کیلئے پریشانی کا سامنا ہے۔