مور چھوٹے موٹے سانپ کھانے کا شوقین ہوتا ہے۔ چور کے پالنے والے نے زمین کھودی اور ہار کو سانپ سمجھ کر۔ چور نے بہت کوشش کی ہے کہ مور چوری ہار کو واپس اگل دے لیکن کامیاب نہیں ہوا یہ واردات چھپی نہ رہ سکی اور چور کو پکڑنے والا۔ کوتوال نے چور سے پوچھا کہ میرا ہارارا چور نے بتایا کہ ہار کو مورکھا ہے۔ یہ سن کر کوتوال نے کہا کہ ”چور کو پڑ گیا مور” کے بعد ازاں کوتوال نے مور کا پیٹ چاک کیا اور مارکر برآمد کر لیا لیکن ”چوروں کو پڑ گئے مور” ایک محاورہ بن گیا جو آج کل تحریک انصاف ہے۔ حلقوں میں بڑا پاپولر۔
تحریک انصاف کے کارکن نے کورر لاہور کے گھر سے چوری کیا اس موقع پر موجود وائس آف امریکہ کے نمائندے مورے نے سوال کیا کہ یہ مورے آپ کیوں لے جا رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے ٹائیگر نے جواب دیا کہ یہ عوام کا مال ہوا جو ہم واپس جا رہے ہیں۔
اس موقع پر ایک انگلش سپیکنگ آنٹی نے صحافیوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ وہ کور کمانڈر کے کچن کی ریفریجریٹر سے سٹرابری چرا لائی ہے اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر خوب انجوائے کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کو محاورہ تو یاد رہتا ہے لیکن وہ اس محاورے کا پس منظر سمجھ نہیں سکتا۔ وہ ایک مور کو کا مال قرار دے رہے ہیں لیکن یہ 9 مئی 20 23ء کو انہوں نے اس پالنے والے کو بھی ادا کیا۔ میرا اشارہ اس چور کی طرف نہیں جس نے توشہ خانہ سے چوری کی۔
توشہ خانہ سے بھی کئی ہار اور کئی گھڑیاں چوری محسوس کرتے ہیں اور مورے انہیں سانپ سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ میرا اشارہ ان ریٹائرڈ محبان وطن کی طرف ہے جو کبھی اپنے سیاسی سرکس کے لیے شیر پالتے ہیں اور جب شیر باغی کر دیتے ہیں تو پھر مور پالتے ہیں۔ ان ریٹائر محبان وطن کی تنظیم کی عزت کسی قیمتی ہار سے کم نہیں تھی لیکن افسوس کہ ان کا آپ ہی پالا ہوا مور اس عزت کو۔ 9 مئی کے واقعات جن محبان وطن کے ”فیض” کا نتیجہ آج انہیں نہیں ملے گا تو اپنے قومی جرم کا حساب دینا۔ کووال نے صرف مور کا پٹواری چوری شدہ ہار برآمد کرنا نہیں بلکہ مور پالنے والے چوروں کو بھی ان جرات کی سزا دلوانی نے کہا ہے۔
یہ آج کل کوتوال کو عدالتوں پر بھی اعتماد نہیں ہے کیونکہ عدالت میں کہا گیا ہے کہ قاضی قانون کے مطابق نہیں بلکہ اپنی بیگمات کی مسئلہ پر عدالت کرتے ہیں۔ کیا عمران خان نے قاضی کی مدد سے کوتوال اور اس سے اوپر کی حکومت کو مکمل طور پر ڈالا؟ کیا عمران خان کے دوبارہ اقتدار کی راہ میں اب کوئی بازار نہیں چل رہا؟ یہ فریق عام نہیں نظر آرہا ہے۔ یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
اس جنگ کو سمجھنا اور ان کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ان کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کچھ تلخ حقائق تسلیم کرنا لیکن افسوس ہے کہ آج پاکستان میں عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان سے کرپٹ عمر عطا بندیال تک۔ کوئی بھی سچ سننے کے لیے تیار ہے۔ 9 مئی کے ایسے واقعات ہماری سیاست میں فوج اور آئی کی مسلسل مداخلت کانتیجہ۔ پارلیمینٹ اور فوج کی جنگ میں اکثر عدلیہ نے فوج کا ساتھ دیا اور فوج نے پارلیمینٹ کو زیر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
2007ء کی وکلا تحریک میں سیاسی فوج نے عدلیہ کے ساتھ اور عدلیہ کے خلاف بھر پور مزاحمت کی۔ پرویز مشرف کے مشرف کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کے بعد ججز کی سلامتی کے عدلیہ بھی پاکستان کی سیاست میں اسٹیک ہو سکتے ہیں۔ عدلیہ نے کہا کہ ایک بار پھر خفیہ اداروں کے ساتھ ملی بھگت کو پارلیمین کے ٹکراؤ شروع کرنا شروع کر دیا۔ سیاسی معاملات میں منتخب وزرائے اعظم کو قرار دینے کے واقعات کاتعلق قانون کی بالادستی سے نہیں بلکہ ججوں کے سیاسی ایجنڈے سے۔ یہ ایجنڈا اس وقت سامنے آیا ہے جب سابق نمائیندہ سیاسی افتخار محمد چودھری نے ایک پارٹی کر پاکستان میں ریاستی نظام واپسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ نعرہ افتخار محمد چودھری کا نہیں۔
یہ وہ دیرینہ ہے جس کا ایک بیان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے خود میرے لیے۔ وہ پاکستان میں ریاستی نظام کے لیے مدد حاصل کرنے کے لیے تھے لیکن میری گستاخانہ سیخ پا اور اس کے سنگین نتائج میں بار بار بھگتے۔ 2018ء کے خوبصورت میں دھونس اور دھاندلی کے عمران خان کو اقتدار کا اصل مقصد پاکستان کے صدارتی نظام کی طرف سے دھکیلنا تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ بار آئین میں بہت زیادہ قرار دیا گیا تھا۔ بہت
افسوس ہے کہ اس جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دلانے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پاکستان کے مخالفوں کی خدمت کار بن آئی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ 2022ء میں شہباز شریف کے وزیر اعظم کے حکم کے بعد بھی جنرل باجوہ کے ہائی کورٹ جونیئر ججوں کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے مسلم لیگ (ن) سے بات چیت کی گئی تو پھر ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) جنرل باجوہ کی سہولت کاری نہیں تو آج حالات مختلف ہیں۔ آج مسلم لیگ (آرمی) اور تحریک انصاف انصاف کی ترجمان بنی ہوئی ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد جنرل عاصم منیر کے بیان کے خلاف سیاسی تنازعات میں تبدیلی کی گئی۔ کورر لاہور کے گھر پر کے بعد حکمران اتحاد نے عدالت سے باہر نکلنے کا اعلان کیا۔ سیاسی تنازعات میں اداروں کا تقدس اور انسانی حقوق دونوں پامال ہو رہے ہیں۔
مجھے اس تخریب میں بھی تعمیر کا پہلو نظر آ رہا ہے۔ عوام کو سمجھ میں آگئی ہے کہ ہمارے اکثر مسائل اور عدلیہ کی سیاست کی وجہ سے فوجی مداخلت کرتے ہیں اور آج ہماری بڑی سیاسی جماعتیں دونوں کندھے استعمال کرنے والے اپنے تجارتی اداروں کا تحفظ کر رہی ہیں۔ ان اداروں کی سیاست میں بند ہونا مور کے پیٹ سے صرف ہار کی برآمدگی کافی نہیں بلکہ چوری کا بھی جواب دینا ضروری ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کیرتی پالیسی کی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔