
ملک میں انتخابات کی بنیاد میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے کو آج سترہ برس مکمل نتیجہ نکلا ہے۔ چارٹر فارموکریسی پر 14مئی سن 2006 کو سابق وزراء اعظم میاں نواز شریف اور بے نظیر بٹ نے تسلیم کیا۔
ملکی سیاست پر اس کا تاریخی تصور کیا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کیوں کہ اس ملک کا سیاسی مستقبل دیکھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، سابق صدر اور سابق صدر آصف زرداری کو چوروں کا ٹولہ کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ملک میں پنپنے کا کہنا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے لیڈر آمریت کے لیے ڈسے ہیں اور ایک دوسرے کو آمریت کو اب استقامت کے لیے نہیں کہتے۔
موجودہ حکومتی اتحاد کی بنیاد سن 2006 میں آج ہی ہوئی تھی جب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق پر لندن دستخط میں دستخط کیے تھے۔ اس میثاق کی داغ بیل جدہ میں ہوئی تھی جب بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری نے جلاوطن سے سعودی جا کر ملاقات کی تھی اور جنرل پرویز مشرف کے آمریت کے خلاف مستقبل کی سیاسی حکمت عملی عملی عربی تھی۔
میری وجہ یہ تھی کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق فوجیوں نے کہا تھا کہ ملک کو کچھ بڑے فائدے بھی ملے۔ پرویز مشرف کے آمر جنرل کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے ہیں اور ملک کی سمت درست ہے جو کہ پچاس ساٹھ برس ہی جانا چاہیے۔
بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اس تاریخی چارٹر فار ڈیموکریسی میں سول ملٹری تعلقات کا فیصلہ طے پا گیا ہے اور اب امید ہے کہ جس طرح دیگر فوجوں میں سویلین حکومت کا ماتحت ہوتا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی ممکن ہے جس کا جذباتی عوام۔ کو
میثاق جمہوریت سے پہلے کی سیاست کا الگ رخ تھا۔
سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بیٹی کی بیٹی بے نظیر نے جنرل ضیاء الحق کے اپنے والد کی پھانسی اور اپنی جلاوطنی سہی۔ آمر کی نظر سے تو طیارہ حادثہ میں بے موت موت کو اقتدار تک لے آئی تھی لیکن دو برس پہلے ہی نے حکومت کے خلاف تحریک چلا کر انہیں باہر کیا تھا۔
حکومت کو بھی نہیں آیا تھا کیوں کہ بے نظیر کو رائیونڈ کی راہ دکھائی تھی۔ بے نظیر اقتدار نے پھر پا لیا تو مگر اسے لاڑکانہ دینے میں کامیاب رہے۔ آپ کو ناکام بناتا کون تھا؟ دونوں کو اسکا احساس 1999 میں جنرل مشرف کی آمریت سے ہوا۔
بے نظیر نے اسی آمر سے ڈیل کی تھی تو میں نے 2007 میں انٹرویو میں سوال کیا کہ میثاق پارلیمنٹ کا کیا ہوا؟ بے نظیر برملا نے کہا تھا کہ جنرل مشرف سے بات چیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ صدر اور خود کو پیش قدمی کرنے والے لیڈر ہیں بلکہ اس کا یہ کہنا ہے کہ ملک میں خود مختار ہو اور تمام وطن واپسی ممکن ہو۔
اسی کے نتیجے میں صرف بے نظیر بھٹو بلکہ میاں بیوی کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی پر پہلے کراچی کے علاقے کارسا پر بم دھماکوں کا استعمال کیا گیا اور یاد نہیں کیا گیا تو اس پروگرام میں خود کش حملہ آور کو شہید کر دیا گیا۔
بے نظیر کی شہادت بھی اور ن لیگی راہیں جدا نہ کر سکی۔ میثاق جمہوریت کے سامنے بھوربن ڈکلیئریشن کی صورت میں رہا ہے جب کہ آصف زرداری اور ججز کی وکالت اور حکومت کے قیام کی راہداری کے لیے اعلامیہ پر دستخط کرنے کے لیے ہم اعلانیہ اتحاد جاری کر رہے تھے اور کہا تھا کہ یہ نسل کشی تک جاری رہے گی۔
یہ میثاق جمہوریت ہی تھا۔ اسی میاق کی روح نے ن لیگ کو بھی پانچ سال ثابت کرنا نصیب نہیں ہوا۔
شاید اسی میثاق سے خوفزدہ عناصر نے ‘بھان متی کا کنبہ’ جوڑ کر عمران حکومت تشکیل دی۔ وہ بھی پانچ سال کی منظوری سے اگر عمران خان نے میثاق دستخط پر دستخط کرتے ہیں۔