
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کو اسمگل شدہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے دکانوں پر چھاپ مارنے کے اختیارات مل گئے۔
فنانس بل کے مطابق اسملنگ کی روک مقابلہ کے لیے خاصہ دار فورس ایف بی آر کی معاونت کو روکے۔
رضاکارانہ طور پر فنانس کمیٹی کے اجلاس میں بل کا جائزہ لیا گیا اور فنانس بل میں کپڑا اور جوتوں پر سیلز ٹیکس کی تجویز کو مسترد کرنا منسوخ کرنا۔
خیال رہے کہ بجٹ میں بجلی کی فراہمی اور جوتوں پر سیلز ٹیکس 12 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد کرنے کی تجویز تھی۔
بجلی میں کھانے پینے کی رقم کی زیادہ مقدار خریدنے پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مکھن، دیسی گھی، سرخ مرچ، ہلدی، ادرک کی زیادہ مقدار میں خریداری پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجویز دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق حکام کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں فنانس بل 24-2023 کے شق وار جائزے کے دوران حکام نے بتایا کہ ایف بی آر کو اسمگل کے تصور سے باہر نکلنے کے لیے چھپا مارنے کا اختیار مل گیا، خاصہ دار فورس ایف بی آر کی معاونت کرے
کمیٹی نے گراؤنڈ پورٹ پر 3 دن کے اندر گڈز ڈیکلریشن کی کلیئرنس کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے کم سے کم 5 دن چاہیں گے۔
ایف بی آر کمیشن نے بتایا کہ گوشت، مچھلی، پھل، دیسی گھی، دہی پنیر ڈبہ بندی برآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرنا۔ سرخ مرچ، ہلدی، ادرک کی زیادہ مقدار میں خریداری یا رولڈ مصالحہ جات پر بھی 18 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر نے 223 ارب روپے ٹیکس تجویز کیا۔ 200 ارب روپے نئے ٹیکس جن میں 175 ارب براہ راست ٹیکس۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایل سیز کھلا نہیں، 25 فیصد شرح سود پر کاروبار مشکل ہے، جب 33 روپے میں بجلی خریدیں گے تو صنعت کا پہیہ چلنا مشکل ہے۔
یاد رہے کہ 9 جون کو وزیر اعظم اسحاق ڈار نے مالی سال 24-2023 کا 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
بجلی کے تناسب کے مطابق بجلی 24-2023 کا مجموعی حجم 14 کھرب 60 ارب روپے مختص کیا گیا۔ بجلی میں نئے ٹیکسز کی ادائیگی سے گریز کیا گیا ہے جبکہ شرط کے لیے 11 کھرب 50 ارب روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے اور دفاعی رقم میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم اسحاق نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال کے دوران ملک میں صنعتوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں دیا جا سکتا۔